ہندوستان کی طاقت کا عالم: وزیر اعظم مودی کا مؤقف اور آپریشن سندور کی فتح

ہندوستان کے پارلیمانی سیشن کی شروعات اور وزیر اعظم...

مدھیہ پردیش میں سیاسی تنازعہ: جیتو پٹواری کا شیوراج سنگھ چوہان پر شدید حملہ

کون، کیا، کہاں، کب، کیوں اور کیسے؟ مدھیہ پردیش کے...

لکھنؤ: مینگو فیسٹیول میں آموں کی بھرپور لوٹ، سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو

لکھنؤ میں حیران کن 'مینگو فیسٹیول' کی کہانی لکھنؤ شہر...

سپریم کورٹ کا نیٹ یو جی کے نتائج میں مداخلت سے انکار، طلبہ کو شفافیت کی یقین دہانی

نئی دہلی کی سپریم کورٹ نے نیٹ یو جی امتحانات کے نتائج پر فیصلہ سنا دیا

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز نیٹ یو جی (نیشنل ایلیجبیلیٹی کم انٹرنس ٹیسٹ فار انڈرگریجویٹ) امتحان کے نتائج میں مداخلت کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ اس درخواست پر غور کرنا نہ صرف ایک طالب علم بلکہ پوری قوم کے طلبہ کے مفادات پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اس معاملے میں، جسٹس پی ایس نرسمہا اور جسٹس آر مہادیون پر مشتمل بنچ نے درخواست گزار کے دلائل کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا کہ یقیناً یہ ایک قومی امتحان ہے جس میں لاکھوں طلبہ شامل ہوتے ہیں، لہذا محض ایک شخص کی شکایت کی بنیاد پر نتائج میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔

اس معاملے کا تعلق جموں و کشمیر کے ایک طالب علم شوم گاندھی رینا سے ہے، جنہوں نے سوال کیا کہ نیٹ یو جی 2025 کے امتحان میں ایک ایسا سوال شامل کیا گیا تھا جس کے متعدد درست جوابات موجود تھے۔ انہوں نے استدعا کی کہ ان کے منتخب کردہ جواب کو غلط قرار دینا غیر مناسب ہے۔ شوم کی تحقیق کے مطابق، اگر ان کا جواب درست قرار دیا جاتا تو ان کی درجہ بندی میں نمایاں بہتری آ سکتی تھی۔

عدالت نے شوم گاندھی رینا کی درخواست کو کیوں رد کیا؟

عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر ایک طالب علم کی انفرادی شکایت پر نتائج میں تبدیلی ہونے لگی تو یہ پورے امتحانی نظام کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ اس دوران، سینئر وکیل آر بالاسبرامنیم نے عدالت کو یاد دلایا کہ 2024 میں سپریم کورٹ نے ایک مشابہ معاملے میں مداخلت کی تھی، لیکن جسٹس نرسمہا نے بیان کیا کہ 2024 میں متعدد طلبہ کی شکایات تھیں، جو کہ موجودہ کیس سے مختلف ہیں۔

جسٹس نرسمہا نے کہا، "اگر ہم صرف ایک طالب علم کی بنیاد پر مداخلت کریں تو یہ سراسر غیر منطقی ہوگا۔” وہ طالب علم کی بات کی سچائی کو تسلیم کرتے ہیں، مگر قومی امتحان میں لاکھوں طلبہ کی شمولیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس طرح کی مداخلت کے دور رس اثرات ہو سکتے ہیں۔

عدالت کی یہ بھی وضاحت تھی کہ، "ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کس قسم کی درخواستیں ذاتی طور پر نہیں بلکہ قومی مفاد میں ہیں۔” اگر ہر طالب علم اپنی انفرادی شکایت لے کر عدالت آتا ہے تو یہ امتحانی نظام کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

نیٹ یو جی 2025 کے نتائج: اہم نکات

نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) کے زیر اہتمام نیٹ یو جی امتحان میں شوم گاندھی رینا کی آل انڈیا رینک 6783 اور جنرل زمرے میں رینک 3195 رہی۔ شوم کا کہنا ہے کہ اگر انہیں پانچ اضافی نمبر ملتے ہیں تو یہ ان کی رینکنگ میں بہتری لا سکتا ہے، مگر عدالت نے ان کی استدعا مسترد کر دی۔

عدالت نے یہ فیصلہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اگر ایسا ہوا تو باقی طلبہ کے لیے بھی مختلف طریقے سے رینکنگ کی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ شوم کے وکیل نے عدالت کو یہ بھی یاد دلایا کہ 2024 میں بھی اسی طرح کی شکایات پر مداخلت کی گئی تھی، جس پر عدالت نے کہا کہ وہ معاملہ اس سے مختلف تھا۔

کیا سپریم کورٹ کی مداخلت ضروری ہے؟

یہ سوال اہم ہے کہ کیا سپریم کورٹ کو اس طرح کی انفرادی شکایات پر مداخلت کرنی چاہیے؟ اگرچہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو کسی ایک طالب علم کے ساتھ مخصوص ہے، مگر اس کے اثرات پوری قوم کے طلبہ پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ "ہمارے نظام میں شفافیت ہونی چاہیے، اور ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہر طالب علم کو ان کا حق ملے، مگر کسی ایک طالب علم کی شکایت پر پورے امتحانی نظام میں تبدیلی ہونا مناسب نہیں۔”

طلبہ کے لیے سپریم کورٹ کا فیصلہ: مستقبل کی درستی

یہ عدالتی فیصلہ واضح کرتا ہے کہ تعلیمی اداروں اور امتحانی نظام میں شفافیت اور انصاف کی ضرورت ہے، مگر انفرادی شکایات کی بنیاد پر پورے نظام میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ سپریم کورٹ نے ایک مضبوط پیغام دیا ہے کہ قومی امتحانات کے نتائج میں مداخلت صرف ان معاملات میں کی جائے گی جہاں بڑے پیمانے پر مسائل موجود ہوں، نہ کہ انفرادی شکایات کی بنیاد پر۔

مستقبل کی راہ

جس طرح سے سپریم کورٹ نے اس معاملے میں فیصلہ سنایا، یہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کیسا مضبوط تعلیمی نظام ہونا چاہیے جہاں ہر طالب علم کی آواز سنی جائے مگر اس کے مطابق پورے نظام میں تبدیلی کی ضرورت نہیں پڑے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے طلبہ کو یہ یقین دہانی ملی ہے کہ ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا اور قومی امتحانات کی شفافیت کو برقرار رکھا جائے گا۔

ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔