ہندوستان کی طاقت کا عالم: وزیر اعظم مودی کا مؤقف اور آپریشن سندور کی فتح

ہندوستان کے پارلیمانی سیشن کی شروعات اور وزیر اعظم...

مدھیہ پردیش میں سیاسی تنازعہ: جیتو پٹواری کا شیوراج سنگھ چوہان پر شدید حملہ

کون، کیا، کہاں، کب، کیوں اور کیسے؟ مدھیہ پردیش کے...

لکھنؤ: مینگو فیسٹیول میں آموں کی بھرپور لوٹ، سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو

لکھنؤ میں حیران کن 'مینگو فیسٹیول' کی کہانی لکھنؤ شہر...

قیام پاکستان تشدد سے ہوا اور تشدد پر ہی قائم ہے

وزیر اعظم نریندر مودی نے دوٹوک اور واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ دہشت گردی صرف کوئی عام مجرمانہ سرگرمی نہیں بلکہ ایک اعلانیہ جنگ ہے۔ بھارت نے ان دہشت گردوں کو ہدف بنا کر انصاف کا وہ چراغ روشن کیا ہے جو برسوں سے بجھائے رکھا گیا تھا۔ یہ وہ چہرے تھے جو دہائیوں سے قانونی گرفت سے باہر تھے۔

پاکستان کے سخت گیر نظریاتی جرنل سید عاصم منیر نے حالیہ کشمیر حملے کی منظوری اس فرسودہ مگر زہریلے مفروضے کو دہرا کر دی کہ اسلام ایک قوم کی بنیاد کے لیے کافی ہے۔ برطانوی سرپرستی میں پروان چڑھنے والا دو قومی نظریہ، جس نے برصغیر کی تقسیم کی راہ ہموار کی، محض 24 برس بعد ہی 16 دسمبر 1971 کو اپنے انجام کو پہنچ گیا، جب بنگلہ دیش کے عوام نے اردو کی جگہ بنگلہ کو اپنایا اور اپنی آئینی شناخت کو لسانی بنیاد پر ازسرنو مرتب کیا۔

اسلام کبھی کسی سیاسی ریاست کا واحد جواز نہیں رہا۔ اگر اسلام ہی کافی ہوتا تو 22 عرب ممالک کیوں وجود میں آتے؟ ان کے پاس تو مذہب اور زبان دونوں مشترک ہیں۔ اسلام ایک عقیدہ ہے، اسے کسی سرحد میں قید نہیں کیا جا سکتا۔

1971 کے بعد پاکستان نے اپنے قیام کے نظریے کی جگہ کوئی نیا قومی بیانیہ متعارف نہیں کرایا، بلکہ ایک ایسے خلا میں چلا گیا جہاں وہ ایک پرچم تلے مختلف نسلی شناختوں کے انتشار کو قابو میں رکھنے کی لاحاصل کوشش کرتا رہا۔ گزشتہ نصف صدی سے پاکستان ایک نظریاتی بھوت کو دوبارہ زندگی دینے کی سعی میں مبتلا ہے۔

دہشت گردی جو خون آلود اور دھندلی جنگ کی ایک شکل اختیار کر چکی ہے، ایک غیر مستحکم نظریاتی ریاست کا پسندیدہ اور ناگزیر ہتھیار بن گئی ہے۔ ایسی ریاست جہاں مستقل حکمرانی بدعنوان سیاست اور ناکارہ فوجی قیادت کے ایک خطرناک امتزاج پر قائم ہو، بالآخر انہی راستوں پر چلتی ہے۔ جنرل منیر نہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے تاریخ اور عقل کو نظر انداز کر کے جغرافیہ تلاش کرنے کی کوتاہی کی، اور نہ ہی آخری ہوں گے۔

پاکستان نے اپنی عملی زندگی کے آغاز کے صرف دس ہفتے بعد ہی جدید دہشت گردی کی بنیاد رکھ دی۔ 22 اکتوبر 1947 کو، ایچ وی ہاڈسن کے مطابق، پاکستان نے تقریباً پانچ ہزار مسلح افراد کو، جنہیں "چھٹی پر گئے” پاکستانی فوجیوں کی پشت پناہی حاصل تھی، کشمیر پر حملے کے لیے روانہ کیا، تاکہ عید (جو اُس برس 26 اکتوبر کو تھی) سے قبل وادی پر قبضہ کر لیا جائے۔ ان حملہ آوروں نے راستے میں لوٹ مار کی، قتل و غارت مچائی، اور تباہی کے وہ مناظر چھوڑے جن کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔ اُن کے نظریاتی وارث آج بھی سری نگر پر قبضے کا خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں۔

پاکستان اب بھی اس خام خیالی میں مبتلا ہے کہ ایک ہی آزمودہ اور ناکام حکمتِ عملی کو دہرا کر وہ مختلف نتائج حاصل کر لے گا۔ مگر یہ سوچ بار بار ایک ہی انجام پر منتج ہوتی ہے: دہشت گردی، یلغار، جنگ، اور بالآخر شکست۔ اس فکری بانجھ پن پر حیرت ہوتی ہے۔ پاکستان کے مزاج میں یہ خمیر اس حد تک رچ بس گیا ہے کہ وہ شکست کو کبھی تسلیم نہیں کرتا، گویا شکست بھی اُس سے شکست کھا جائے۔

بھارتی وزرائے اعظم نے ہمیشہ زیادہ حقیقت پسندانہ اہداف کو ترجیح دی ہے، جن میں عوامی فلاح کے لیے معیشت کی مسلسل ترقی بھی شامل ہے۔ مگر جب بھی انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ جنگ کو واضح اہداف کے ذریعے محدود رکھا جانا چاہیے، وہ تنقید کی زد میں آ گئے۔ دہلی مستقل جنگ کا حامی نہیں۔ پاکستان خواہ ایک بند دائرے میں قید ہو، بھارت ایک وسیع دنیا کا حصہ ہے۔

محترمہ اندرا گاندھی، جنہیں بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد بی جے پی کے سرکردہ رہنما اٹل بہاری واجپئی نے دیوی درگا کے لقب سے یاد کیا تھا، اس وقت عوامی تنقید کا نشانہ بنیں جب انہوں نے 16 دسمبر 1971 کو یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا۔ حالانکہ بھارتی افواج اُس وقت پاکستان کو بری طرح شکست دے چکی تھیں اور پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر میں داخل ہونے کی پوری گنجائش موجود تھی، مگر اندرا گاندھی نے فیصلہ کن لمحے پر جنگ روک دی۔ حتیٰ کہ 1972 کے شملہ معاہدے میں بھی، جہاں پاکستان کے 93 ہزار جنگی قیدی بھارت کی تحویل میں تھے، انہوں نے مسئلہ کشمیر کے کسی مستقل اور ٹھوس حل پر زور نہیں دیا۔

اس کے برعکس، وزیر اعظم نریندر مودی نے جنگ بندی تب قبول کی جب انہوں نے پاکستان کے جوہری اثاثوں کے بالکل قریب واقع سرگودھا پر ایک حیران کن حملہ کر کے اسلام آباد کو ایک غیر معمولی اور سخت پیغام دیا۔ بھارتی میزائل خطا نہیں کرتے۔ جیسے جیسے اس حملے کی تفصیلات منظر عام پر آ رہی ہیں، بھارت کی عسکری ساکھ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان ہل کر رہ گیا، اور امریکہ نے پیغام بخوبی سمجھ لیا۔ اب دونوں اس امر سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ بھارت نہ صرف فوری اور مؤثر جوابی وار کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی کی فولاد جیسی ارادی قوت بھی کسی مصلحت کی محتاج نہیں۔ جیسا کہ انہوں نے امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کو واضح الفاظ میں کہا: "اگلی بار انجام اس سے کہیں زیادہ ہولناک ہوگا۔”

امریکہ تب ہی متحرک ہوتا ہے جب خطرہ اپنی حد سے تجاوز کر جائے۔ 1999 میں، بل کلنٹن نے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو صاف الفاظ میں حکم دیا کہ وہ کارگل سے فوری طور پر پسپائی اختیار کریں۔ شریف نے امریکہ کے صدر کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا۔ بعد ازاں اُن کے بھائی شہباز شریف نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے اسی عاجزانہ روش کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان اگرچہ چین کا تابع فرمان کلائنٹ اسٹیٹ ہے، لیکن ساتھ ہی وہ امریکہ کا خدمت گزار ریاست بھی ہے۔ یہ داخلی تضاد اب پاکستان کی قومی شناخت کا مستقل حصہ بن چکا ہے۔

پاکستان اب ایک ایسا اسلامی ڈان کیہوتے بن چکا ہے جس کے ہاتھ میں ایٹمی نیزہ تھما دیا گیا ہے۔ 2001–2002 میں جب بھارتی پارلیمان پر دہشت گرد حملہ ہوا تو پورا برصغیر ایک ممکنہ ایٹمی تصادم کے دہانے پر جا پہنچا۔ اُس وقت وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی اور وزیر دفاع جارج فرنانڈس نے "کولڈ اسٹارٹ” نامی حکمت عملی تیار کی، جس کے تحت بھارت کبھی بھی پہل نہیں کرے گا، لیکن اگر جواب دینا پڑا تو وہ انتہائی شدید اور فیصلہ کن ہوگا۔ ایسا جوہری بادل پیدا ہوگا جو بغیر کوئی سرحد پہچانے صرف تباہ کن گا۔

2008 ممبئی حملہ کا وہ ایک موقع تھا جب بھارت نے پاکستانی دہشت گردی پر کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب پاکستانی سرپرستوں اور دہشت گردوں کے درمیان براہ راست روابط کے ٹھوس اور ناقابل تردید شواہد دستیاب تھے اُس وقت بھی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا۔ اس کمزوری کا سیاسی خمیازہ بالآخر کانگریس پارٹی کو اٹھانا پڑا۔

اس کے برعکس وزیر اعظم نریندر مودی نے دوٹوک انداز میں واضح کر دیا ہے کہ دہشت گردی محض جرم نہیں بلکہ کھلی جنگ ہے، اور اب کوئی بھی فاصلہ پیدا کرنے والا عذر قابل قبول نہیں ہوگا۔ گزشتہ ہفتے بھارت نے ان دہشت گردوں کو نشانہ بنا کر انصاف کیا ہے جو کئی دہائیوں سے مطلوب تھے۔ تاہم جنگ بندی کے بعد سب سے بڑا سفارتی چیلنج یہ ہے کہ ایک مؤثر انسداد دہشت گردی پروٹوکول تشکیل دیا جائے جو اس بات کا قابل اعتماد ثبوت فراہم کرے کہ آئندہ کسی بھی حملے میں پاکستانی ریاست کا کوئی براہِ راست یا بالواسطہ کردار نہیں ہوگا۔ مگر یہ وہ کام ہے جو کاغذ پر تو آسان نظر آتا ہے مگر عملی طور پر نہایت پیچیدہ اور دشوار ہوتا ہے۔

بھارت کے تقریباً ہر وزیرِ اعظم کو دہشت گردی کی ہولناکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 1980 اور 1990 کی دہائیاں خون میں ڈوبی ہوئی تھیں، جب پاکستان کے آمر اور سیاستدان اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے تھے کہ ان کی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی نے بھارت کو کمزور کر دیا ہے اور اسے ٹکڑوں میں بانٹنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ مگر وہ ایک ایسے بھارت کو سمجھنے میں ہمیشہ ناکام رہے جو قرون وسطیٰ کا کوئی اتفاقی جغرافیائی حادثہ نہیں ایک ایسا ملک ہے جو جدید قومی ریاست کا عملی نمونہ ہے۔ افسوس کہ آج بھی وہ اسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔

جنرل عاصم منیر 20 نومبر 2022 کو آرمی چیف بنے اور صرف تین دن قبل جب ان کی ریٹائرمنٹ طے تھی۔ ان کی مدت ملازمت اس برس نومبر میں مکمل ہو رہی ہے۔ دو قومی نظریے پر ان کی حالیہ تقریر سے پہلے تک ان کی قیادت خاموشی اور پردہ داری میں ڈھکی رہی۔ لیکن اکثر اوقات خاموشی میں وہ اشارے چھپے ہوتے ہیں جنہیں سننے والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اب وہ کھل کر نظریاتی زبان میں گفتگو کر رہے ہیں، اور یہ تبدیلی یقیناً سیاسی نتائج کی حامل ہے۔

کیا یہ نظریاتی جارحیت کسی آئندہ مارشل لا کا پیش خیمہ ہے؟ اگر جنرل منیر کو توسیع دی گئی تو کیا یہ اس بات کا اشارہ نہیں ہوگا کہ وہ حافظ سعید کی نئی سیاسی کٹھ پتلی، "پاکستان مرکزی مسلم لیگ”، کو آئندہ انتخابات کے بعد اقتدار میں لانا چاہتے ہیں، شاید کسی مفاداتی اتحاد کے ذریعے؟ یہ امر کچھ بعید از قیاس بھی نہیں، کہ جو عناصر فرقہ وارانہ دہشت گردی کو نظریاتی سرپرستی دیتے رہے ہیں، وہی آج مسلم لیگ کے نام کو دوبارہ زندہ کر کے اسے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔

بالآخر، پاکستان کی بنیاد کسی عوامی تحریک پر نہیں رکھی گئی تھی، بلکہ خالصتاً قتل عام اور فرقہ وارانہ خونریزی کی بنیاد پر رکھی گئی تھی جس کا آغاز 14 اگست 1946 کو کلکتہ کے عظیم فساد سے ہوا تھا۔

پاکستان کا جنم تشدد کے سائے میں ہوا، اور آج بھی صرف تشدد کے سہارے قائم ہے۔


ایم جے اکبر ایک ممتاز صحافی، مصنف اور سابق وزیرِ مملکت برائے خارجہ امور ہیں، جنہوں نے برصغیر کی سیاست، تاریخ اور اسلام کے عالمی تناظر پر گہرے فکری شعور کے ساتھ متعدد کتب تصنیف کی ہیں۔
_____________________________
یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، جو ضروری نہیں کہ ادارے کے خیالات یا مؤقف کی عکاسی کرتی ہو۔ — ادارے کا ان آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔