ہوم بلاگ

سنجے راؤت کا بی جے پی پر تہذیبی حملہ، ہولی کی خوشیوں میں کشیدگی کی باتیں

0
<b>سنجے-راؤت-کا-بی-جے-پی-پر-تہذیبی-حملہ،-ہولی-کی-خوشیوں-میں-کشیدگی-کی-باتیں</b>
سنجے راؤت کا بی جے پی پر تہذیبی حملہ، ہولی کی خوشیوں میں کشیدگی کی باتیں

سنجے راؤت نے ہولی کے تہوار پر بی جے پی کی کند ذہنی کا بھانڈا پھوڑا

ملک بھر میں آج ہولی کا تہوار بڑی دھوم دھام سے منایا جا رہا ہے، لیکن اس موقع پر کچھ مقامات پر کشیدگی کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔ ایسے میں شیوسینا یو بی ٹی کے رہنما سنجے راؤت نے بی جے پی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن ہماری تہذیب اور ثقافت کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے۔ سنجے راؤت کی یہ باتیں اس وقت سامنے آئیں جب لوگوں نے مسجدوں کو ڈھانپنے کی اطلاعات کا ذکر کیا اور ہولی کے رنگوں کے ساتھ ساتھ نماز بھی ادا کی جا رہی تھی۔

سنجے راؤت نے بی جے پی پر الزام لگایا کہ انہوں نے ملک میں نفرت کی فضا کو بڑھاوا دیا ہے۔ "ہولی ایک ایسا تہوار ہے جس میں سبھی مل کر خوشی مناتے ہیں، لیکن آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ہماری تہذیب کے خلاف ہے۔” انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ "ہم ایک روادار معاشرہ ہیں۔ ہندو مذہب دنیا میں احترام کے ساتھ دیکھا جاتا ہے، لیکن اس قسم کی مذہبی کشیدگی سے ہماری شبیہ متاثر ہوتی ہے۔”

کشیدگی کی وجوہات اور سنجے راؤت کی باتیں

یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب بعض مقامات پر ہولی منانے کے دوران فرقہ وارانہ کشیدگی کی اطلاعات آئیں۔ سنجے راؤت نے اس بات کی نشاندہی کی کہ یہ سب ایک خاص طبقہ کی جانب سے مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا: "ہمیں اپنی ثقافت کی حفاظت کرتے ہوئے سب کو قبول کرنا ہوگا، لیکن پچھلے 10 سالوں میں ہماری آزادی چھینی جا رہی ہے۔”

سنجے راؤت نے مزید کہا کہ "یہ سب کچھ ہمیں کند ذہنیت کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ہم سب کو مل کر ہولی جیسے تہوار منانے کی ضرورت ہے، اور اس میں سیاست کو شامل نہیں کرنا چاہیے۔” انہوں نے تاریخی حوالے دیتے ہوئے کہا کہ "ماضی میں، ہولی کے موقع پر سابق وزیراعظم اور اہم سیاسی رہنما ایک دوسرے کے گھر جایا کرتے تھے، لیکن اب یہ روایت ختم ہو چکی ہے۔”

سیاست اور مذہب: ایک متوازن نقطہ نظر

سنجے راؤت نے بی جے پی کی ہولی کی روایت کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ "ماضی میں، مرلی منوہر جوشی، لال کرشن اڈوانی، اور اٹل بہاری واجپئی جیسے لیڈران نے ہولی منائی، اور اس میں ہر مذہب کے لوگ شامل ہوتے تھے۔ اب وہ سب کچھ ماضی کی باتیں ہیں۔”

انہوں نے یہ بھی کہا کہ "آج کے دور میں ہمیں مذہب کے نام پر ایک دوسرے سے جدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جبکہ اصل میں ہمیں ایک دوسرے کے قریب آنا ہے۔” انہوں نے اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ "ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں، اور اگر ہم نے اس کشیدگی کا حل نہیں نکالا تو مستقبل میں مسائل بڑھے گے۔

تہذیبی ہم آہنگی کی ضرورت

اس تمام صورت حال میں سنجے راؤت کی گفتگو نے ایک اہم مسئلے کی جانب توجہ دلائی ہے کہ ہمیں تہذیبی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ جو لوگ ہولی کے تہوار کو مناتے ہیں، ان کا حق ہے کہ وہ امن اور سکون کے ماحول میں خوشियों کا اظہار کریں۔ اسی طرح، جو لوگ مذہبی رسومات ادا کر رہے ہیں، ان کے حقوق کا بھی احترام کیا جانا چاہیے۔

یہ ضروری ہے کہ ہم ایک ایسا ماحول فراہم کریں جہاں مسلمان اور ہندو، دونوں مل کر ہر تہوار کو منائیں، جیسے کہ ماضی میں ہوتا تھا۔ اس کے لیے معاشرے کے ہر طبقے کو آگے آنا ہوگا اور نفرت کی بجائے محبت اور ہم آہنگی کا پیغام عام کرنا ہوگا۔

سنجے راؤت نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ صورتحال پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم اپنے ملک کی تہذیب اور ثقافت کو مضبوط بنا سکیں۔ اگر ہم اس کشیدگی کو برقرار رکھتے ہیں تو ہماری قوم کا مستقبل متاثر ہوسکتا ہے۔

ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔

بہار کی خوشحالی کے لیے نتیش حکومت کا خاتمہ ضروری ہے: تیجسوی یادو

0
<b>بہار-کی-خوشحالی-کے-لیے-نتیش-حکومت-کا-خاتمہ-ضروری-ہے:-تیجسوی-یادو</b>
بہار کی خوشحالی کے لیے نتیش حکومت کا خاتمہ ضروری ہے: تیجسوی یادو

بہار اسمبلی میں اپوزیشن کی آواز: تیجسوی یادو کا جرات مندانہ بیان

پٹنہ: بہار کی سیاست میں ایک نیا موڑ سامنے آیا ہے جب راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے سینئر لیڈر اور ریاستی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو نے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی حکومت پر شدید تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بہار کے لوگوں کو خوشحالی کی زندگی گزارنی ہے تو 20 سالہ موجودہ حکمرانی کا خاتمہ ضروری ہے۔ تیجسوی یادو نے واضح کیا کہ فقط اسی صورت میں بہار کی عوام کی زندگیوں میں خوشحالی کے رنگ بھریں گے۔

"یہ آپ کی زندگی میں رنگ بھرنے کا سال ہے!” یہ الفاظ تیجسوی یادو نے اپنے ایک ویڈیو پوسٹ میں کہے، جس میں انہوں نے بہار میں نوکریوں کی ضرورت اور ہجرت کے مسائل پر روشنی ڈالی۔ ان کا خیال ہے کہ اگر حکومت کی پالیسیاں بہتر ہوں تو نوجوانوں کو روزگار کے لئے دیگر ریاستوں کی طرف نہیں جانا پڑے گا۔

یری خبریں: بیس سالہ حکومت کے خاتمے کے بعد بہار میں خوشحالی کا آغاز

تیجسوی یادو نے مزید کہا: "جب یہ 20 سالہ حکومت ختم ہو گی، تب ہی آپ کی زندگی میں خوشحالی کے رنگ آئیں گے۔” انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ روزگار، ترقی، اور ہم آہنگی کا رنگ بہار کے ہر شہری کی زندگی میں نمایاں ہونا چاہیے۔

تیجسوی یادو کی یہ تقاریر اس وقت سامنے آئیں جب بہار میں ہولی کا تہوار قریب ہے۔ انہوں نے اس موقع پر لوگوں کو خوشیوں کی دعا دی اور کہا کہ "یہ ہولی آپ کی زندگی میں خوشگوار تبدیلیاں لائے۔” ان کا یہ پیغام خاص طور پر نوجوانوں کے لئے تھا جن کے مستقبل کا دارومدار سرکار کی پالیسوں پر ہے۔

بہار کی سیاسی صورتحال: ایک نظر

بہار کی سیاسی صورتحال میں تناؤ بڑھتا جا رہا ہے، جہاں نتیش کمار کی حکومت پر مختلف الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ تیجسوی یادو کا یہ بیان اس بات کا عکاس ہے کہ اپوزیشن پارٹی اپنے سیاسی مفادات کیلئے سرگرم عمل ہے۔ اس کے علاوہ، بہار میں روزگار کے مسائل بھی ایک بڑا موضوع بن چکے ہیں، جس کی وجہ سے نوجوانوں کی بڑی تعداد احتجاج کر رہی ہے۔

تیجسوی یادو نے اپنے پیغام میں کہا: "آئیے ہم بہار کی ترقی کے لئے ایک نیا باب شروع کریں۔” ان کے مطابق، انتخابات کے بعد اگر صحیح حکومت قائم ہوئی تو ہمیشہ خوشیاں اور مسرتیں آپ کے گھر آئیں گی۔

اندرونی چیلنجز اور باہر کی حقیقتیں

تیجسوی یادو کی تقریریں اور ان کا ایجنڈا اس بات کو اُجاگر کرتا ہے کہ بہار میں کس طرح کے اندرونی چیلنجز درپیش ہیں۔ بہار کی اقتصادی ترقی اور روزگار کے مواقع کی ضرورت ہے، اور یہ عوام کی بنیادی ضرورت بن گئی ہے۔ بہار کے لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے حکمران ان کی طرح کی زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔

جیسا کہ تیجسوی یادو نے کہا، "ایک ایسا بہار جو خوشحالی، ترقی، اور خوشیوں سے بھرپور ہو، ہمیں صرف اسی وقت حاصل ہوگا جب 20 سال کی حکمرانی کو ختم کیا جائے۔” اس بات کو سمجھنے کے لئے کہ بہار میں تبدیلی کی ضرورت ہے، عوام کو اس بات کا احساس دلانا ہوگا کہ اگلی حکومت کیا کرسکتی ہے۔

حکومت کی ناکامیوں کا ذکر اور عوامی احتجاج

نتیش کمار کی حکومت کو کئی بار عوامی احتجاج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مسائل کے حل کی بجائے صرف بیانات دیے جاتے ہیں جو عوام کو مطمئن نہیں کرتے۔ تیجسوی یادو نے عوام کو یہ پیغام دیا کہ ان کی زندگیوں میں روشنی صرف ایک نئی حکومت سے ہی آئے گی۔

آر جے ڈی کے لیڈر نے مزید کہا کہ ریاست کے لوگوں کی خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ حکومت کی ناکامیوں کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ عوام کو اس بات کا احساس ہونا ضروری ہے کہ ان کی طاقت موجودہ حکمرانی کو چیلنج کرنے میں ہے۔

تیجسوی یادو کی امیدیں اور عوامی توقعات

آنے والے انتخابات میں تیجسوی یادو کی یہ امیدیں ان کی پارٹی کے لئے ایک نیا موقع فراہم کرتی ہیں۔ اگر ان کی توقعات پوری ہوتیں ہیں تو یہ بہار کے عوام کے لئے ایک خوشحال مستقبل کی نوید بن سکتی ہیں۔ تیجسوی یادو کی جانب سے دی جانے والی ہولی کی مبارکباد دراصل ایک پیغام ہے کہ اگر تبدیلی آتی ہے تو خوشیاں بھی آئیں گی۔

مزید پڑھیں:
1.[نتیش کمار اور ان کی حکومت کی کارکردگی پر تبصرے](#)
2.[بہار کے روزگار کے مسائل: اپوزیشن کا مؤقف](#)

یہ خبر بہار کی سیاسی صورتحال پر ایک جامع نظر ڈالتا ہے، اور تیجسوی یادو کے بیانات کی روشنی میں آئندہ کے انتخابات میں تبدیلی کے امکانات کی وضاحت کرتا ہے۔ بہار کے شہریوں کی خوشحالی کے خواب ان انتخابی نتائج پر منحصر ہیں۔

ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔

راجکوٹ میں آتشزدگی کا واقعہ، ہلاکتوں کی تعداد تین ہو گئی

0
<b>راجکوٹ-میں-آتشزدگی-کا-واقعہ،-ہلاکتوں-کی-تعداد-تین-ہو-گئی</b>
راجکوٹ میں آتشزدگی کا واقعہ، ہلاکتوں کی تعداد تین ہو گئی

راجکوٹ کی بلند عمارت میں خوفناک آگ: کیا ہوا، کہاں ہوا، کب ہوا، کیوں ہوا، اور کیسے ہوا؟

راجکوٹ کے ایک بلند و بالا عمارت میں ہوئی خوفناک آتشزدگی نے علاقے میں ہلچل مچا دی ہے۔ یہ واقعہ 150 فٹ بلند ایٹلینٹس بلڈنگ میں پیش آیا، جہاں جمعہ کی شام ایک فلیٹ میں آگ بھڑک اٹھی۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق، آگ فلیٹ نمبر 601 میں لگنے کے باعث تین افراد ہلاک ہوگئے، جن میں ایک فائر بریگیڈ کا اہلکار بھی شامل ہیں۔ اس واقعہ میں درجنوں لوگ بھی پھنس گئے، جس نے ریسکیو کارروائیوں کی ضرورت کو مزید بڑھا دیا۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مقامی شہری کشور بھائی بھلانا کے فلیٹ میں آگ لگی۔ آگ کی شدت زیادہ ہونے کی وجہ سے دھواں پوری عمارت میں پھیل گیا جس سے اوپر کی منزلوں پر موجود لوگ بری طرح محصور ہو گئے۔ آگ لگنے کے چند ہی منٹوں میں پورے علاقے میں افراتفری مچ گئی، اور لوگ جان بچانے کے لیے کھڑکیوں اور بالکونیوں سے مدد کے لیے پکارنے لگے۔

فائر بریگیڈ اور پولیس کی ٹیمیں فوراً جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں، اور امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ آگ بجھانے کے لیے مختلف فائر بریگیڈ کی گاڑیاں موقع پر موجود ہیں۔ ریسکیو اہلکاروں نے کرین اور سیڑھیوں کی مدد سے کئی افراد کو بحفاظت باہر نکال لیا، لیکن کچھ لوگ شدید جھلس گئے، جس کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھ گئی۔

رفتار عمل اور ریسکیو آپریشن

عینی شاہدین کے مطابق، آگ لگتے ہی پورے علاقے میں دھواں بھر گیا، اور عمارت میں مقیم افراد نے کھڑکیوں اور بالکونیوں سے مدد کے لیے پکارنا شروع کر دیا۔ آگ کی شدت اور دھوئیں کی کثافت نے حالات کو مزید سنگین بنا دیا۔ کئی لوگوں کو باہر نکالنے کے دوران ریسکیو اہلکاروں کو مشکلات پیش آئیں، لیکن وہ جانفشانی سے اپنی خدمات پیش کرتے رہے۔

راجکوٹ کے اے سی پی بی جے چودھری نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور صورت حال کا جائزہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ ریسکیو آپریشن تیزی سے جاری ہے اور زخمیوں کو قریبی اسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صورتحال کی نگرانی کی جا رہی ہے تاکہ مزید ہلاکتوں سے بچا جا سکے۔

آتشزدگی کے اس واقعے کے بارے میں مزید تفصیلات حاصل کرنے کے لیے ، لوگوں کی جانب سے مقامی انتظامیہ سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ اس حادثے کی وجوہات کا جلد پتہ لگایا جائے تاکہ آئندہ ایسے واقعات سے محفوظ رہنے کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔

حالیہ واقعات کا اثر اور عوامی رد عمل

راجکوٹ کے اس واقعہ کی خبر تیزی سے پھیل گئی اور لوگوں نے سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ بہت سے لوگوں نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ یہ معاملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عمارتوں میں حفاظتی تدابیر کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔

حکومت اور مقامی انتظامیہ کو اس واقعے کے بعد آگ کی حفاظت کے نظام میں بہتری لانے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسے ہولناک واقعات سے بچا جا سکے۔

اگرچہ ریسکیو آپریشن جاری ہے، مگر متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کی حالت پر گہری تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ عوامی حلقے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے واقعات سے بچنے کے لیے عمارتوں کی تعمیرات میں حفاظتی اقدامات کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔

مستقبل کی حفاظت کے اقدامات

یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ شہریوں کی حفاظت کے لیے محفوظ عمارتوں کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام عمارتوں کی جانچ پڑتال کرے اور یقینی بنائے کہ تمام حفاظتی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کی آگاہی کے لیے بھی آگ لگنے کی صورت میں ایمرجنسی پروسیجرز پر تربیت فراہم کی جانی چاہیے۔

ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔

ہندوستان نے پاکستان کے دہشت گردی کے الزامات کو مسترد کر دیا

0
<h1>ہندوستان-نے-پاکستان-کے-دہشت-گردی-کے-الزامات-کو-مسترد-کر-دیا-<b>

ہندوستان نے پاکستان کے دہشت گردی کے الزامات کو مسترد کر دیا

پاکستان کے الزامات کا جائزہ: ہندوستان کا جواب

نئی دہلی میں واقع ہندوستانی وزارت خارجہ نے پاکستان کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا ہے، جن میں کہا گیا ہے کہ جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ کے پیچھے ہندوستان کا ہاتھ تھا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے اس بارے میں ایک تفصیلی بیان جاری کیا جس میں انہوں نے پاکستان کو اپنی داخلی ناکامیوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے دوسروں پر الزام لگانے کے بجائے خود احتسابی کرنی چاہیے۔ یہ صورتحال اس وقت سنگین ہوئی جب بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کر لیا تھا، جس نے پورے خطے میں تناؤ کو بڑھا دیا۔

یہ الزامات اس وقت سامنے آئے جب منگل کو بلوچ معارضین نے پورے 30 گھنٹوں تک اس ٹرین کے ساتھ ایک شدید مقابلہ کیا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق پاکستانی سکیورٹی فورسز نے تقریباً 300 مسافروں کو بچایا، جبکہ 33 جنگجو مارے گئے۔ حالانکہ اس صورتحال میں 21 یرغمالیوں اور 4 سکیورٹی اہلکاروں کی بھی ہلاکت کی تصدیق کی گئی جو اس واقعے کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔

پاکستانی ترجمان کا بیان اور ہندوستان کا ردعمل

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے دعویٰ کیا کہ اس واقعے میں ایک ‘غیر ملکی طاقت’ کا ہاتھ ہو سکتا ہے، البتہ انہوں نے براہ راست ہندوستان کا ذکر نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حملے کے دوران شدت پسند اپنے ‘سرپرستوں’ کے ساتھ افغانستان میں رابطہ میں تھے۔ اس کے جواب میں، ہندوستانی ترجمان نے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ دہشت گردی کا اصل مرکز کہاں ہے اور پاکستان کو اپنی مشکلات اور ناکامیوں کا الزام دوسروں پر ڈالنے کی بجائے خود پر غور کرنا چاہیے۔

یہ الزامات ایک ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب پاکستانی حکومت نے ماضی میں بھی بی ایل اے کی کارروائیوں کے لیے ہندوستان کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان نے اس پالیسی میں کوئی تبدیلی کی ہے، تو انہوں نے کہا کہ ان کے الزامات آج بھی برقرار ہیں۔

امن و امان کی صورتحال

اس وقت پاکستان میں شدت پسندوں کی کارروائیاں اور ان کی سرپرستی کا سوال بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ پاکستانی فوج کی رپورٹ کے مطابق، اس ہائی جیکنگ میں 300 مسافروں کی جان بچائی گئی، جو کہ اچھی خبر تھی، تاہم اس دوران ہونے والی ہلاکتیں اس واقعے کی دہشت کی شدت کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس واقعے نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور پاکستان میں سیکیورٹی صورتحال پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔

ہندوستان کی طرف سے دیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کو اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ اس کے اندرونی مسائل کو حل کرنے کے لیے باہم بات چیت کی ضرورت ہے نہ کہ دوسروں پر الزامات لگانے کی۔ اس کے علاوہ، ماضی کی طرح، بھارت نے اس واقعے کو بھی پاکستان کی اندرونی ناکامیوں کے طور پر دیکھتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔

پاکستان کی اندرونی سیاست اور افواج

پاکستان کی سیاسی صورتحال کافی نازک ہے، جہاں حکومت اور فوج ایک دوسرے کے ساتھ شدید دباؤ میں ہیں۔ اس کے علاوہ، ان کے اندرونی مسائل جیسے کہ معاشی بحران، دہشت گردی، اور علاقائی عدم استحکام نے ملک کی سیکیورٹی کے نظام کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔

پاکستانی حکومت کو عوامی دباؤ کا سامنا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب یہ ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا وہ اپنی سیکیورٹی پالیسیوں میں تبدیلی لانے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ اس حوالے سے وزیر اطلاعات فواد چودری نے ایک بیان میں کہا تھا کہ حکومت اپنے قومی مفاد کا تحفظ کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔

علاقائی اثرات

اس واقعے کے بعد، علاقائی صورتحال بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی بڑھے گی تو اس کا اثر دیگر ہمسایہ ممالک پر بھی پڑے گا۔ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے کام کرنا ہوگا تاکہ امن کی راہ ہموار ہو سکے۔

ماضی میں، دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا سلسلہ جاری رہا ہے، لیکن حالیہ واقعات نے اس بات چیت کو نئی راہوں کی طرف لے جایا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی اس واقعے پر سخت ردعمل آیا ہے، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے تمام ممالک کے لیے خطرات میں اضافہ ہوتا ہے۔

ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔

گوگل کروم کے صارفین کیلئے خطرے کی گھنٹی: حکومت نے جاری کی ہائی رسک وارننگ

0
<b>گوگل-کروم-کے-صارفین-کیلئے-خطرے-کی-گھنٹی:-حکومت-نے-جاری-کی-ہائی-رسک-وارننگ</b>
گوگل کروم کے صارفین کیلئے خطرے کی گھنٹی: حکومت نے جاری کی ہائی رسک وارننگ

معلومات کی چوری کا خدشہ، اہم ہدایت

اگر آپ گوگل کروم کا استعمال کرتے ہیں، تو یہ لمحہ آپ کے لئیے بہت زیادہ آگاہی کا ہے۔ حالیہ دنوں میں، کروم براؤزر میں مختلف خامیاں دریافت کی گئی ہیں، جن کی وجہ سے یوزر کا ڈیٹا چوری ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ یہ مسائل صرف ونڈوز اور لینکس کے صارفین کو ہی متاثر نہیں کرتے، بلکہ میک کے صارفین بھی ان خطرات سے محفوظ نہیں ہیں۔ بھارتی حکومت کی جانب سے جاری کردہ ہائی رسک وارننگ نے اس مسئلے کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ سرکاری ایجنسی، انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی ریسپانس ٹیم (CERT-IN)، نے اس سلسلے میں بہت ہی واضح اور سنجیدہ اقدام اٹھایا ہے۔

یہ خامیاں کیا ہیں اور ان کا اثر کہاں ہوگا؟

CERT-IN کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ کروم براؤزر میں پائی جانے والی خامیوں کا فائدہ ہیکرز لے سکتے ہیں، جس کی بنیاد پر وہ صارف کے ڈیوائس تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس خطرے کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ محض ایک سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کرنے کا مسئلہ نہیں، بلکہ ایک انٹرنیٹ سیکیورٹی کا معاملہ ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اگر آپ کے پاس کروم کا پرانا ورژن ہے، تو آپ کے لئے فی الفور اپ ڈیٹ کرنا انتہائی ضروری ہے۔

کس ورژن کو اپ ڈیٹ کرنا ہے؟

CERT-IN کے مطابق، اگر آپ کا براؤزر ورژن 134.0.06998.35 یا اس سے پرانا ہے، تو فوراً اسے اپ ڈیٹ کریں۔ ونڈوز کے صارفین کیلئے 134.06998.35 یا اس سے پرانا ورژن بھی ہیکنگ کا ممکنہ خطرہ بن سکتا ہے۔ اسی طرح، میک صارفین کیلئے ورژن 134.0.6998.44/45 یا اس سے پہلے کے ورژن کو بھی اپ ڈیٹ کرنا ضروری ہے۔ یہ ہدایات ایسے صارفین کیلئے ہیں جو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انہیں کیسے محفوظ رہنا ہے۔

سائبر سیکیورٹی کے لیے احتیاطی تدابیر

یہ لازم ہے کہ ہر ایک صارف اپنی سیکیورٹی کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کرے۔ CERT-IN کے ذرائع کے مطابق، کسی بھی براؤزر یا ایپ کو مستقل طور پر اپ ڈیٹ کرتے رہنا نہ صرف اس میں نئے فیچرز کا استعمال کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، بلکہ کسی بھی ممکنہ خامی سے چھٹکارا پانے کا بھی ایک مؤثر ذریعہ ہے۔

پرانے ورژنز کی خطرناک حقیقت

ماضی میں بھی ایسے کئی مواقع گزر چکے ہیں، جب CERT-IN نے پرانے ورژنز کے حوالے سے وارننگ جاری کی تھی۔ جنوری میں بھی، ایجنسی نے 132.0.6834.83/8r اور 132.0.6834.110/111 جیسے ورژنز کے استعمال کرنے والے صارفین کو محتاط رہنے کی ہدایت کی تھی۔ ان ورژنز میں ایسی خامیاں موجود تھیں جو ہیکرز کے لئے سیکیورٹی کو بائی پاس کرنا آسان بنا دیتی تھیں۔ اس طرح کی خامیاں نہ صرف انفرادی صارفین کیلئے نقصان دہ ہیں بلکہ یہ اداروں کے لئے بھی ایک بڑا خطرہ بن جاتی ہیں۔

انٹرنیٹ استعمال میں احتیاطی تدابیر

عام طور پر، یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ صارفین کو ہمیشہ اپنے سافٹ ویئر کے ورژنز کی جانچ کرنی چاہئے اور انہیں مستقل طور پر اپ ڈیٹ کرتے رہنا چاہئے۔ اس سے نہ صرف آپ کے آلے کی کارکردگی بہتر ہو گی بلکہ انٹرنیٹ پر موجود خطرات سے بھی محفوظ رہیں گے۔

انتہائی اہم معلومات

اگر آپ نے اپنا کروم ورژن اپ ڈیٹ نہیں کیا، تو آپ کو ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے۔ یہ خامیاں صرف سافٹ ویئر کی ایک اپ ڈیٹ کی مدد سے دور ہو سکتی ہیں۔ اگر آپ کا براؤزر پرانا ہے، تو آپ فوری طور پر اسے اپ ڈیٹ کرلیں تاکہ آپ اور آپ کے ڈیٹا کو ممکنہ خطرات سے بچایا جا سکے۔

ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔

بنگلہ دیش کی سیاسی کشمکش: شیخ حسینہ کی عائد پابندیاں اور جائیداد ضبطی کا عمل

0
<b>بنگلہ-دیش-کی-سیاسی-کشمکش:-شیخ-حسینہ-کی-عائد-پابندیاں-اور-جائیداد-ضبطی-کا-عمل-</b>
بنگلہ دیش کی سیاسی کشمکش: شیخ حسینہ کی عائد پابندیاں اور جائیداد ضبطی کا عمل

بنگلہ دیش کی عدالت نے شیخ حسینہ کے خلاف بڑا فیصلہ سنادیا

بنگلہ دیش کی عدالت نے گزشتہ روز ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ کی جائیدادیں ضبط کرنے اور ان کے رشتہ داروں کے بینک کھاتے سیل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کارروائی کا مقصد ملک میں بدعنوانی کی روک تھام ہے اور اس کی بنیاد بدعنوانی مخالف کمیشن (اے سی سی) کی طرف سے دی گئی درخواست پر ہے۔ اس فیصلے کے تحت نہ صرف شیخ حسینہ بلکہ ان کے قریبی رشتہ داروں کے مالی اثاثے بھی سراغ لگا کر ضبط کیے جائیں گے۔

عدالت کی جانب سےروشن کی گئی تفصیلات کے مطابق ان کی رہائش گاہ ‘سدھا سدن’ اور 124 بینک کھاتے جن کا تعلق شیخ حسینہ کے خاندان سے ہے، ان کو سیل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق عدالت کے حکم پر عمل درآمد کرنے کی ذمہ داری مقامی انتظامیہ پر عائد ہوگی۔

شیخ حسینہ کی حکومت کی معزولی اور اس کے اثرات

اس واقعے کے پس منظر میں بنگلہ دیش میں پچھلے سال ہونے والے بڑے مظاہروں کو سمجھنا ضروری ہے۔ بنگلہ desh میں طلبا نے حکومت کے خلاف پرزور مظاہرے کیے تھے، جس کے نتیجے میں 15 سال تک حکمرانی کرنے والی شیخ حسینہ کی حکومت کو 5 اگست کو معزول ہونا پڑا۔ اس کے بعد ملک کے معیشت میں بگاڑ اور سیاسی عدم استحکام کو مدنظر رکھتے ہوئے محمد یونس نے عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر عہدہ سنبھالا۔

معزول وزیر اعظم کا بھارتی پناہ گزینی کا فیصلہ

شیخ حسینہ، جو اس وقت ہندوستان میں پناہ گزین ہیں، نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد اپنے مستقبل کے بارے میں کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ اگرچہ ان کی حکومت کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، لیکن ان کے حامیوں نے ان کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کو سیاسی انتقام قرار دیا ہے۔ حسینہ کے حامیوں کا موقف ہے کہ ان کے خلاف یہ تمام کارروائیاں ان کی سیاسی حیثیت کو کمزور کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔

بدعنوانی کی روک تھام اور قانونی کارروائی

عدالت کے فیصلے کے مطابق، بدعنوانی مخالف کمیشن کے سامنے پیش کردہ شواہد کی بنیاد پر یہ حکم جاری کیا گیا ہے۔ اس عمل میں شیخ حسینہ کے بیٹے سازیب واجد جوائے، بیٹی صائمہ واجد پٹن، بہن شیخ ریحانہ اور دیگر رشتہ دار بھی شامل ہیں۔ ان کی جائیدادوں کا سراغ لگا کر ضبط کرنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ یہ کارروائی عوام کے سامنے عدالت کے نظام کی طاقت اور مستقل مزاجی کا مظہر بھی ہے۔

آگے کیا ہوگا؟

اس صورتحال میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آنے والے دنوں میں شیخ حسینہ اور ان کے خاندان کے ارکان اس قانونی کارروائی کا کس طرح سامنا کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ اس وقت ہندوستان میں ہیں، لیکن بنگلہ دیش کے حالات کے اعتبار سے ان کی واپسی کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔

یہ تمام صورتحال عوامی جذبات پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے اور اگر عوامی حمایت کو مدنظر نہ رکھا گیا تو اس کے نتائج ممکنہ طور پر سنگین ہو سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی سیاست میں اس واقعہ کے اثرات بہت دور تک جا سکتے ہیں۔

بین الاقوامی تناظر

بنگلہ دیش کی اس سیاسی صورتحال کو بین الاقوامی تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کے ممالک خاص طور پر جنوبی ایشیاء کے ممالک اس بات کی نگرانی کر رہے ہیں کہ کیسے بنگلہ دیش میں سیاسی استحکام کو بحال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، بین الاقوامی برادری کی جانب سے انسانی حقوق کے مسائل پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے۔

ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔

چکن تکے کی بے مثال افطاری: سہولت اور ذائقہ کا بہترین امتزاج

0
###-چکن-تکے-کی-بے-مثال-افطاری:-سہولت-اور-ذائقہ-کا-بہترین-امتزاج
### چکن تکے کی بے مثال افطاری: سہولت اور ذائقہ کا بہترین امتزاج

رمضان میں خوشبو دار چکن تکے کی تفصیلات

رمضان المبارک کا مہینہ روحانی عزم و ہمت کا عکاس ہے، جہاں روزے رکھنے کے بعد افطار کا وقت سب کو خوشی دیتا ہے۔ افطار کے لیے مختلف لذیذ اور صحت مند کھانے بنانے کی خواہش سب میں پائی جاتی ہے، اور چکن تکہ ایک ایسا پکوان ہے جو نہ صرف جلدی تیار ہوتا ہے بلکہ اس کا ذائقہ بھی دلکش ہوتا ہے۔ چکن تکہ پروٹین سے بھرپور اور لذیذ ہونے کے ساتھ ساتھ صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ اس مضمون میں، ہم چکن تکہ بنانے کی ایک آسان اور منفرد ترکیب پر بات کریں گے، جسے آپ اپنے گھر پر افطار کے دوران بنا کر لطف اٹھا سکتے ہیں۔

 چکن تکے کے اجزاء

چکن تکہ بنانے کے لئے مندرجہ ذیل اجزاء کی ضرورت ہوگی:

– چکن (بغیر ہڈی کے) – ½ کلو (چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ لیں)
– دہی – ½ کپ
– لیموں کا رس – 2 کھانے کے چمچ
– ادرک لہسن کا پیسٹ – 1 کھانے کا چمچ
– سرخ مرچ پاؤڈر – 1 چائے کا چمچ
– دھنیا پاؤڈر – 1 چائے کا چمچ
– زیرہ پاؤڈر – 1 چائے کا چمچ
– گرم مسالا پاؤڈر – ½ چائے کا چمچ
– ہلدی – ¼ چائے کا چمچ
– نمک – حسبِ ذائقہ
– تیل یا مکھن – برش کرنے کے لیے
– سیخیں – اگر گرل پر پکانا ہو
– کوئلہ – دھواں دینے کے لیے (اختیاری)

 چکن کی میرینیشن اور پکانے کا طریقہ

چکن تکہ کے بننے کا اہم مرحلہ اس کی میرینیشن ہے۔ چکن کو مزیدار بنانے کے لیے آپ کو کچھ سادہ اقدامات پر عمل کرنا ہوگا:

 چکن کی میرینیشن:

1. ایک بڑے پیالے میں دہی، لیموں کا رس، ادرک لہسن کا پیسٹ، سرخ مرچ پاؤڈر، دھنیا پاؤڈر، زیرہ پاؤڈر، گرم مسالا، ہلدی اور نمک ڈال کر اچھی طرح مکس کریں۔
2. چکن کے ٹکڑوں کو اس آمیزے میں ڈالیں اور اچھی طرح سے مکس کریں تاکہ تمام مسالے چکن میں جذب ہو جائیں۔
3. چکن کو کم از کم 2 گھنٹے کے لیے فریج میں رکھیں تاکہ یہ اچھی طرح میرینیٹ ہو جائے۔ اگر وقت ہو تو اسے 6-8 گھنٹے تک میرینیٹ کریں تاکہ ذائقہ مزید بہتر ہو جائے۔

 چکن کو پکانے کے طریقے:

چکن تکہ پکانے کے مختلف طریقے ہیں، جن میں شامل ہیں:

(الف) گرل یا باربی کیو پر پکانا:

چکن کے ٹکڑوں کو سیخوں میں پرو دیں اور پہلے سے گرم کی ہوئی گرل پر درمیانی آنچ پر پکائیں۔ ہر طرف سے مکھن یا تیل کا برش کرتے جائیں تاکہ چکن تکہ خشک نہ ہو۔ ہر سائیڈ پر 7-8 منٹ پکائیں، جب تک کہ چکن اچھی طرح گل جائے اور ہلکا سنہری رنگ آ جائے۔

(ب) تندور یا اوون میں پکانا:

اوون کو 200 ڈگری سینٹی گریڈ پر گرم کریں۔ چکن کے ٹکڑوں کو بیکنگ ٹرے میں رکھیں اور 20-25 منٹ کے لیے بیک کریں۔ درمیان میں ایک بار چکن کو پلٹیں اور برش سے مکھن لگائیں تاکہ تکہ نرم اور جوسی رہے۔

(ج) فرائی پین میں پکانا:

نان اسٹک پین میں تھوڑا سا تیل گرم کریں اور چکن کے ٹکڑوں کو درمیانی آنچ پر پکائیں۔ ہر طرف سے 5-6 منٹ پکائیں، جب تک کہ چکن گل جائے اور سنہری رنگ لے لے۔

کوئلے کا دھواں (اختیاری):

اگر آپ باربی کیو کا روایتی ذائقہ چاہتے ہیں تو بس ایک چھوٹا جلا ہوا کوئلہ چکن کے برتن میں رکھیں اور اس پر تھوڑا سا تیل ڈالیں، پھر ڈھکن بند کر دیں۔ 5 منٹ بعد نکال لیں تاکہ دھویں کا ذائقہ چکن میں شامل ہو جائے۔

 چکن تکہ کی سروینگ

چکن تکہ کو پودینے کی چٹنی، پیاز، کھیرے اور ٹماٹر کے سلاد کے ساتھ گرم گرم سرو کریں۔ یہ مزیدار پکوان افطار کا لطف دوبالا کرے گا! آپ اسے اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ بانٹ کر رمضان کی خوشیوں میں اضافہ کرسکتے ہیں۔

ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔

سنبھل کی جامع مسجد کے باہر رنگ و روغن کی اجازت: الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ

0
###-سنبھل-کی-جامع-مسجد-کے-باہر-رنگ-و-روغن-کی-اجازت:-الہ-آباد-ہائی-کورٹ-کا-فیصلہ
### سنبھل کی جامع مسجد کے باہر رنگ و روغن کی اجازت: الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ

 الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ: سنبھل کی جامع مسجد کی رنگ و روغن کی اجازت

الہ آباد ہائی کورٹ نے سنبھل کی شاہی جامع مسجد کی کمیٹی کو ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی بیرونی دیواروں پر رنگ و روغن کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ فیصلہ جسٹس روہت رنجن اگروال کی سنگل بینچ نے سنایا اور کہا کہ رنگ و روغن کا یہ کام صرف مسجد کی بیرونی دیواروں تک محدود رہے گا۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ اس کام کے سلسلے میں اگر روشنیوں کی تنصیب کی جاتی ہے تو یہ کام کسی بھی قسم کے ڈھانچے کو نقصان پہنچائے بغیر کیا جانا چاہئے۔

مسجد کمیٹی نے رنگ و روغن کی اجازت کے لیے الہ آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ جسٹس اگروال نے اس درخواست پر غور کرتے ہوئے کہا کہ مسجد کی بیرونی دیواروں کا حسن بڑھایا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اس میں کوئی ساختی تبدیلی نہ کی جائے یا کسی تاریخی ڈھانچے کو نقصان نہ پہنچے۔

 قانونی پس منظر اور درخواست کا طریقہ

مسجد کی رنگ و روغن کی اجازت کے لیے درخواست دائر کرنے کے بعد، عدالت نے بھارتی آثار قدیمہ سروے (اے ایس آئی) کو اس معاملے کی نگرانی کرنے کی ہدایت بھی دی ہے۔ یہ حکم ایک ہفتے کے اندر رنگ و روغن کے کام کو مکمل کرنے کے لئے تھا۔

اس سے پہلے، الہ آباد ہائی کورٹ نے مسجد کی رنگ و روغن کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا اور صرف صفائی کی اجازت دی تھی۔ عدالت نے اے ایس آئی سے رپورٹ طلب کی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ موجودہ حالت میں رنگ و روغن کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ فیصلہ نہ صرف مسجد کی حیثیت کو برقرار رکھنے بلکہ اس کی آرائش میں اضافے کا بھی ذریعہ بنے گا۔ سنبھل کی شاہی جامع مسجد تاریخی اور ثقافتی رکھتی ہے، اور اس کے باہر کی حالت کو بہتر بنانا اس کی خوبصورتی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔

 عوامی ردعمل اور اہمیت

یہ فیصلہ سنبھل کی مقامی کمیونٹی میں خوشی کی لہر دوڑانے کا باعث بنا ہے، جہاں لوگ اس بات کے خواہاں تھے کہ مسجد کی بیرونی دیواروں کو بہتر بنایا جائے۔ اس فیصلے سے عوامی ردعمل میں مثبت تبدیلی آئی ہے، اور لوگوں نے اس اقدام کو مسجد کی اہمیت اور ثقافتی ورثے کی حفاظت کے طور پر دیکھا۔

مقامی رہنماؤں نے بھی اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ مساجد کی حالت کو بہتر بنانا نہ صرف اسلامی تہذیب کی عکاسی کرتا ہے بلکہ یہ مقامی ثقافت کو بھی مضبوط کرتا ہے۔

 مسجد کی تاریخی اہمیت

سنبھل کی جامع مسجد کی تاریخ صدیوں پرانی ہے اور یہ علاقائی ثقافت کا اہم حصہ ہے۔ یہ مسجد واضح طور پر اسلامی فن تعمیر کا بہترین نمونہ ہے اور اس کا محفوظ رہنا نہایت اہم ہے۔ اگرچہ عدالت نے رنگ و روغن کی اجازت دے دی ہے، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے تاریخی اور ثقافتی اعتبار کو مدنظر رکھا جائے۔

 آئندہ کے اقدامات اور نگرانی

اس معاملے میں اگلے مراحل یہ ہیں کہ مسجد کمیٹی رنگ و روغن کا کام شروع کرے گی اور اے ایس آئی کی نگرانی میں یہ کام مکمل کیا جائے گا۔ اگرچہ عدالت نے یہ کام ایک ہفتے کے اندر مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے، تاہم کچھ چیلنجز پیش آ سکتے ہیں، بشمول موسم کی خرابی یا دیگر مسائل۔

یہ بات اہم ہے کہ عوامی اہمیت کے حامل مقامات کی دیکھ بھال اور رنگ و روغن کے کام کو مقامی کمیونٹی کی شمولیت کے ساتھ انجام دیا جائے، تاکہ وہ اس عمل کا حصہ بن سکیں اور اپنی ثقافتی ورثے کی حفاظت میں کردار ادا کر سکیں۔

 مقامی کمیونٹی کی شمولیت

رنگ و روغن کے اس منصوبے میں مقامی کمیونٹی کی شمولیت نہ صرف اس عمل کو بہتر بنائے گی بلکہ لوگوں کو یہ احساس بھی دلائے گی کہ وہ اپنے مذہبی مقامات کی دیکھ بھال میں کس طرح حصہ لے سکتے ہیں۔ یہ اقدام نہ صرف مسجد کی خوبصورتی کو بڑھائے گا بلکہ عوامی شعور کو بھی بیدار کرے گا۔

یہ صورتحال یہ عندیہ دیتی ہے کہ اگر ہم اپنے ثقافتی ورثے کی حفاظت کرنے کے سلسلے میں اجتماعی طور پر کام کریں تو بہتری ممکن ہے۔

ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔

جنوب مشرقی ایشیا میں پھنسے 283 ہندوستانیوں کی محفوظ واپسی کا عمل مکمل

0
<b>جنوب-مشرقی-ایشیا-میں-پھنسے-283-ہندوستانیوں-کی-محفوظ-واپسی-کا-عمل-مکمل</b>
جنوب مشرقی ایشیا میں پھنسے 283 ہندوستانیوں کی محفوظ واپسی کا عمل مکمل

ہندوستانی حکومت کی موثر کارروائی: 283 پھنسے شہریوں کی وطن واپسی

نئی دہلی: حال ہی میں، 283 ہندو شہریوں کو میانمار اور دیگر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے بحفاظت واپس لایا گیا ہے، جہاں وہ فرضی روزگار کے جال میں پھنس گئے تھے۔ یہ لوگ تھائی لینڈ کے مائی سوت ہوائی اڈے سے ایک خصوصی پرواز کے ذریعے واپس آئے، جس کی پرواز ہندوستانی فضائیہ نے فراہم کی۔ یہ واقعہ ایک سنجیدہ مسئلے کی عکاسی کرتا ہے جس میں غیر قانونی روزگار ریکٹس کے ذریعے شہریوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلنے کا سلسلہ جاری ہے۔

کون، کیا، کہاں، کب، کیوں اور کیسے؟

کون: یہ 283 ہندوستانی شہری ہیں، جنہیں حکومت ہند نے بھرپور کوششوں کے بعد بحفاظت وطن واپس لانے میں کامیابی حاصل کی۔

کیا: ان افراد کو فرضی روزگار کے سلسلے میں دھوکہ دے کر میانمار اور تھائی لینڈ میں لے جایا گیا تھا، جہاں انہیں سائبر کرائم اور دیگر دھوکہ دہی پر مبنی سرگرمیوں میں ملوث کیا گیا۔

کہاں: یہ سب افراد تھائی لینڈ کے مائی سوت ہوائی اڈے پر جمع ہوئے تھے، جہاں سے انہیں واپس وطن روانہ کیا گیا۔

کب: یہ کارروائی پیر کی رات کو شروع ہوئی اور یہ لوگ منگل کی صبح دہلی پہنچے۔

کیوں: ان افراد کو ایک سازش کے تحت دھوکہ دیا گیا تھا تاکہ انہیں مجبوراً ایسے کاموں میں لگایا جائے جن کا ان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

کیسے: ہندوستانی فضائیہ کے ایک طیارے نے ان افراد کو بحفاظت واپس لانے کا عمل انجام دیا، جبکہ ہندوستانی سفارت خانے نے مقامی حکام کے ساتھ مل کر ان کی رہائی کو یقینی بنایا۔

حکومتی کوششیں اور عوامی آگاہی

ہندوستانی وزارت خارجہ نے اس معاملے پر واضح کیا ہے کہ حکومت ہند نہ صرف ان افراد کی واپسی کے لیے کوشاں رہی بلکہ اسی دوران عوام کی آگاہی کے سلسلے میں بھی مؤثر اقدامات کیے۔ وزارت نے عوام کو متنبہ کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی ملازمت کی پیشکشوں کے سلسلے میں احتیاط برتیں اور کسی بھی پیشکش کو قبول کرنے سے پہلے مکمل تحقیق کریں۔

مزید برآں، وزارت نے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ غیر ملکی آجروں کے حوالے سے مکمل جانچ پڑتال کریں، خاص طور پر ان کمپنیوں اور ایجنٹس کے ٹریک ریکارڈ کو ضرور دیکھیں۔ اس حوالے سے حکومت نے اپنی ویب سائٹ پر کئی معلوماتی مشورے بھی شائع کیے ہیں، تاکہ لوگ ان فرضی ریکٹس کے خطرات سے آگاہ رہے۔

فرد کی سلامتی اہمیت رکھتی ہے

حکومت ہند، وقتاً فوقتاً، سوشل میڈیا پوسٹس اور دیگر ذرائع کے ذریعے عوام کو اس خطرے کے بارے میں آگاہ کرتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ، ہندوستانی شہریوں کو کسی بھی مشکوک ملازمت کی پیشکش یا صورتحال میں فوراً ہندوستانی سفارت خانے یا قونصل خانے سے رابطہ کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

یہ واقعی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، کیونکہ ایسے دھوکہ دہی کے واقعات نہ صرف ان لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں بلکہ ان کے خاندانوں میں بھی بے چینی پیدا کرتے ہیں۔ مزید برآں، یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر کوئی شہری کسی ایسے واقعے میں پھنس جائے تو اس کی بازیابی کے لیے حکومت کی کوششیں ہمیشہ جاری رہتی ہیں، جیسا کہ اس حالیہ واقعے میں ظاہر ہوا۔

بہتر مستقبل کے لیے آگاہی ضروری ہے

یہ واقعہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی ترقی کے باوجود، دھوکہ دہی کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یقیناً، ہر ایک کو انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والی بھرتیوں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل ہونی چاہئیں۔ حکومت ہند کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات ایک تو ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو پھنسے ہوئے ہیں، لیکن دوسری طرف، اس طرح کی واقعات کی روک تھام کے لیے عوام کو آگاہ کرنا بھی لازم ہے۔

ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔

ہولی کے رنگوں سے بچنے کے لیے ترپال کا حجاب؟ یوپی کے وزیر کا متنازعہ بیان

0
<b>ہولی-کے-رنگوں-سے-بچنے-کے-لیے-ترپال-کا-حجاب؟-یوپی-کے-وزیر-کا-متنازعہ-بیان</b>
ہولی کے رنگوں سے بچنے کے لیے ترپال کا حجاب؟ یوپی کے وزیر کا متنازعہ بیان

یوپی حکومت کے وزیر نے ہولی کے رنگوں سے تحفظ کے لیے متنازعہ مشورہ دیا

اس وقت پورے ملک میں ہولی کے موقع پر سیاست میں گرمی بڑھ گئی ہے۔ اس معاملے میں یوپی حکومت کے وزیر رگھو راج سنگھ کا ایک متنازعہ بیان سامنے آیا ہے، جس نے سماجی اور سیاسی حلقوں میں کافی ہلچل مچائی ہے۔ وزیر رگھو راج نے کہا کہ "جن کو ہولی کے رنگوں سے بچنا ہے، وہ ترپال کا حجاب پہن کر گھر سے نکلیں”۔ اس بیان میں انہوں نے ہولی کی مذہبی اور ثقافتی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کے ممکنہ خطرات کی بھی بات کی۔

پولیس افسر نے متنازعہ بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہولی کو عید سے اہمیت حاصل کرنی چاہیے

رگھو راج سنگھ کے اس بیان کے بعد، سنبھل کے سی او انوج چودھری نے بھی ایک متنازعہ بیان دیا جس میں کہا کہ "ہولی سال میں ایک بار آتی ہے جبکہ جمعہ 52 بار ہوتا ہے۔ ایسے میں جن کو رنگوں سے دقت ہے، وہ گھر میں رہیں”۔ ان کے اس بیان نے بھی ہولی کے تہوار کو لے کر بحث کو طول دیا ہے۔

وزیر نے ہولی میں مداخلت کرنے والوں کے لیے سخت الفاظ استعمال کیے

رگھو راج سنگھ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ "ہولی میں رخنہ ڈالنے والوں کے لیے تین جگہ ہیں: جیل، ریاست چھوڑ دیں یا یمراج کے پاس اپنا نام لکھوا دیں”۔ یہ بیان کچھ لوگوں کے لیے سختی کا مظہر جبکہ دوسروں کے لیے ایک مشورہ محسوس ہوا ہے کہ وہ تہوار کے دوران بہتر رویہ اپنائیں۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مندر کی حمایت

اسی دوران رگھو راج نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مندر بنانے کے مطالبے کی بھی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ "اے ایم یو میں مندر بننا چاہئے، اور اس کے لیے ہمیں اکثریت کا احترام کرنا چاہئے”۔ اس بیان نے بھی مزید بحث کو جنم دیا ہے کہ مذہبی مقامات کی تعمیر میں سیاست کا کیا کردار ہونا چاہیے۔

ہولی اور رمضان کی ہم آہنگی

قابل ذکر ہے کہ اس بار ہولی اور رمضان کا دوسرا جمعہ ایک ہی دن یعنی 8 مارچ 2023 کو آیا ہے۔ اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے، یہ بات اہم ہے کہ دونوں تہواروں کے درمیان ہم آہنگی اور امن برقرار رکھا جائے۔

وزیر نے دیانتداری کے ساتھ مذہبی تہواروں کی اہمیت کا احاطہ کیا

وزیر گلابو دیوی نے بھی سنبھل کے سی او کے بیان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ "ہر مذہب کے تہوار کو پُرامن طریقے سے منانا چاہیے، اور اس میں فرقہ پرستی کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے”۔ ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی کی حکومت ہمیشہ یہی چاہتی ہے کہ تمام تہوار کے دوران خیرسگالی اور محبت کا جذبہ ہو۔

عوامی ردعمل اور بحث

ان بیانات کے بعد مختلف سیاسی اور سماجی رہنماؤں نے اپنے مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے اسے عدم برداشت کی علامت سمجھا ہے جبکہ دیگر نے اسے ایک ذمہ دارانہ مشورہ قرار دیا ہے۔ اس دوران مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی اس معاملے پر بحث جاری ہے اور لوگ اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔

رگھو راج سنگھ اور دیگر وزراء کے بیانات کے بعد، یہ دیکھا جا رہا ہے کہ کیا ہولی کے موقع پر امن و امان برقرار رکھنے کے لئے کچھ خاص اقدامات کئے جائیں گے یا نہیں۔

ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔