سنجے راؤت نے ہولی کے تہوار پر بی جے پی کی کند ذہنی کا بھانڈا پھوڑا
ملک بھر میں آج ہولی کا تہوار بڑی دھوم دھام سے منایا جا رہا ہے، لیکن اس موقع پر کچھ مقامات پر کشیدگی کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔ ایسے میں شیوسینا یو بی ٹی کے رہنما سنجے راؤت نے بی جے پی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن ہماری تہذیب اور ثقافت کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے۔ سنجے راؤت کی یہ باتیں اس وقت سامنے آئیں جب لوگوں نے مسجدوں کو ڈھانپنے کی اطلاعات کا ذکر کیا اور ہولی کے رنگوں کے ساتھ ساتھ نماز بھی ادا کی جا رہی تھی۔
سنجے راؤت نے بی جے پی پر الزام لگایا کہ انہوں نے ملک میں نفرت کی فضا کو بڑھاوا دیا ہے۔ "ہولی ایک ایسا تہوار ہے جس میں سبھی مل کر خوشی مناتے ہیں، لیکن آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ہماری تہذیب کے خلاف ہے۔” انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ "ہم ایک روادار معاشرہ ہیں۔ ہندو مذہب دنیا میں احترام کے ساتھ دیکھا جاتا ہے، لیکن اس قسم کی مذہبی کشیدگی سے ہماری شبیہ متاثر ہوتی ہے۔”
کشیدگی کی وجوہات اور سنجے راؤت کی باتیں
یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب بعض مقامات پر ہولی منانے کے دوران فرقہ وارانہ کشیدگی کی اطلاعات آئیں۔ سنجے راؤت نے اس بات کی نشاندہی کی کہ یہ سب ایک خاص طبقہ کی جانب سے مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا: "ہمیں اپنی ثقافت کی حفاظت کرتے ہوئے سب کو قبول کرنا ہوگا، لیکن پچھلے 10 سالوں میں ہماری آزادی چھینی جا رہی ہے۔”
سنجے راؤت نے مزید کہا کہ "یہ سب کچھ ہمیں کند ذہنیت کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ہم سب کو مل کر ہولی جیسے تہوار منانے کی ضرورت ہے، اور اس میں سیاست کو شامل نہیں کرنا چاہیے۔” انہوں نے تاریخی حوالے دیتے ہوئے کہا کہ "ماضی میں، ہولی کے موقع پر سابق وزیراعظم اور اہم سیاسی رہنما ایک دوسرے کے گھر جایا کرتے تھے، لیکن اب یہ روایت ختم ہو چکی ہے۔”
سیاست اور مذہب: ایک متوازن نقطہ نظر
سنجے راؤت نے بی جے پی کی ہولی کی روایت کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ "ماضی میں، مرلی منوہر جوشی، لال کرشن اڈوانی، اور اٹل بہاری واجپئی جیسے لیڈران نے ہولی منائی، اور اس میں ہر مذہب کے لوگ شامل ہوتے تھے۔ اب وہ سب کچھ ماضی کی باتیں ہیں۔”
انہوں نے یہ بھی کہا کہ "آج کے دور میں ہمیں مذہب کے نام پر ایک دوسرے سے جدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جبکہ اصل میں ہمیں ایک دوسرے کے قریب آنا ہے۔” انہوں نے اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ "ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں، اور اگر ہم نے اس کشیدگی کا حل نہیں نکالا تو مستقبل میں مسائل بڑھے گے۔
تہذیبی ہم آہنگی کی ضرورت
اس تمام صورت حال میں سنجے راؤت کی گفتگو نے ایک اہم مسئلے کی جانب توجہ دلائی ہے کہ ہمیں تہذیبی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ جو لوگ ہولی کے تہوار کو مناتے ہیں، ان کا حق ہے کہ وہ امن اور سکون کے ماحول میں خوشियों کا اظہار کریں۔ اسی طرح، جو لوگ مذہبی رسومات ادا کر رہے ہیں، ان کے حقوق کا بھی احترام کیا جانا چاہیے۔
یہ ضروری ہے کہ ہم ایک ایسا ماحول فراہم کریں جہاں مسلمان اور ہندو، دونوں مل کر ہر تہوار کو منائیں، جیسے کہ ماضی میں ہوتا تھا۔ اس کے لیے معاشرے کے ہر طبقے کو آگے آنا ہوگا اور نفرت کی بجائے محبت اور ہم آہنگی کا پیغام عام کرنا ہوگا۔
سنجے راؤت نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ صورتحال پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم اپنے ملک کی تہذیب اور ثقافت کو مضبوط بنا سکیں۔ اگر ہم اس کشیدگی کو برقرار رکھتے ہیں تو ہماری قوم کا مستقبل متاثر ہوسکتا ہے۔
ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔