کیا فلسطینیوں کی نسل کشی واقعی کبھی رکے گی؟

فلسطین کی نسل کشی مسلسل جاری ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں جیسے امریکہ اور خطے کی اہم خلیجی مسلم ریاستیں صرف اپنے معاشی و سیاسی مفادات کے سودے کر رہی ہیں، جبکہ فلسطینی عوام کی کوئی نمائندگی، شمولیت یا آواز ان سودوں میں شامل نہیں۔

فلسطین پر حملے اور ٹرمپ کا خلیجی دورہ

جس وقت امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ خلیجی ممالک کا دورہ کر رہے تھے، اسی دوران فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ بھی پوری شدت کے ساتھ جاری رہا۔ اگرچہ یہ ظلم و ستم تقریباً 20 ماہ سے جاری ہے، غزہ کا علاقہ اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ یہاں باقی ماندہ لاکھوں افراد زندگی اور موت کی کشمکش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ بھٹکنے پر مجبور ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 سے قبل بھی فلسطینیوں کو اندھیرے میں رکھ کر سودے کیے جا رہے تھے، اور آج 20 ماہ بعد بھی بغیر ان کی شرکت کے نت نئے منصوبے پیش کیے جا رہے ہیں۔

کوئی امن کے نام پر ان کی مسلح جدوجہد کو مکمل طور پر خاموش کرنا چاہتا ہے، کوئی انہیں ان کے گھروں سے دربدر کر دینا چاہتا ہے، کوئی انخلا کا مطالبہ کر رہا ہے اور کوئی انہیں دیگر ممالک میں دھکیلنے کی سازش کر رہا ہے۔ ان سب میں ایک طرف صہیونی ظلم، طاقت اور سازشیں شامل ہیں تو دوسری طرف امریکہ جیسے عالمی "چودھری” کی سرپرستی اور مسلم مملکتوں کی مجبوری، خاموشی اور دنیاوی مفادات بھی برابر کے شریک ہیں۔

فلسطینیوں کے مستقبل کا یہ سودا ہر فریق اپنے اپنے مفاد کی عینک سے دیکھ رہا ہے — اور اصل فریق، یعنی خود فلسطینی، اس منظرنامے سے غائب ہیں۔ ایسے کسی بھی منصوبے پر سوال اٹھنا فطری ہے۔

خلیجی ممالک کا دورہ اور مسئلہ فلسطین پر سرد مہری

امریکی صدر ٹرمپ نے حال ہی میں خلیج کے تین ممالک کا دورہ کیا، جن میں ہمیشہ کی طرح سب سے پہلے سعودی عرب کا انتخاب کیا۔ 2017 میں بھی ان کا پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب ہی تھا۔ دنیا بھر کی نظریں اس دورے پر مرکوز تھیں۔ اگرچہ ٹرمپ نے اس بار صہیونی ریاست کا سفر نہیں کیا، مگر یہ امید کی جا رہی تھی کہ وہ فلسطینی مسئلے پر کوئی سنجیدہ اقدام کریں گے، کیونکہ سعودی عرب، قطر اور کچھ حد تک متحدہ عرب امارات اس مسئلے پر ہمیشہ سرگرم رہے ہیں۔

لیکن ٹرمپ کے اس دورے کا واحد مقصد تجارت، معیشت اور اسلحہ کی فروخت تھا۔ نہ مسئلہ فلسطین کے حل میں ان کی دلچسپی نظر آئی، نہ غزہ میں جاری نسل کشی روکنے میں۔

جس امریکہ کی پشت پناہی میں اسرائیل خون کی ندیاں بہا رہا ہے، کیا اس پر دباؤ ڈال کر یہ قتل عام نہیں روکا جا سکتا تھا؟ افسوس کہ ایسا نہ خلیجی ممالک نے کیا، نہ ٹرمپ نے۔

ٹرمپ نے فلسطین سے زیادہ دلچسپی ہندوستان اور پاکستان کی کشیدگی میں لی۔ انہوں نے یہاں تک دعویٰ کر دیا کہ تجارت کے دباؤ سے انہوں نے ایک ممکنہ ایٹمی جنگ کو روک دیا۔ اس کا تذکرہ انہوں نے خلیجی دورے کے دوران کئی بار دہرایا۔

تو کیا سعودی عرب، قطر یا یو اے ای انہیں آمادہ نہیں کر سکتے تھے کہ وہ اپنے اتحادی اسرائیل کو روکے، جو ہر دن سیکڑوں بے گناہ فلسطینیوں کی جان لے رہا ہے؟

امن کا سفیر یا اسلحے کا تاجر؟

امریکہ سے امید کم ہی ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حق میں کوئی قدم اٹھائے گا۔ اس کا واحد ہدف اسرائیل کا تحفظ اور فلسطینیوں کی دربدرگی ہے۔

ٹرمپ اگرچہ خود کو امن کا علمبردار ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور کچھ لوگ انہیں نوبل امن انعام کا امیدوار بھی سمجھنے لگے ہیں، مگر ان کے اقدامات کا رخ مختلف ہے۔

انہوں نے:

  • ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ رکوانے کا دعویٰ کیا

  • شام پر پابندیاں ہٹائیں

  • سعودی عرب میں شامی صدر احمد الشرع سے ملاقات کی — وہی جن پر امریکہ نے 10 بلین ڈالر کا انعام رکھا تھا

  • ایران سے بات چیت اور نیوکلیائی امور پر مذاکرات کی امید بندھائی

  • روس اور یوکرین کے درمیان جنگ رکوانے کی ناکام کوشش کی

  • یوکرینی صدر زیلنسکی کو امریکہ بلا کر مذاکرات کیے

  • اسرائیل کو اعتماد میں لیے بغیر یمن کے حوثیوں سے خفیہ ڈیل کی

  • حماس سے درپردہ مذاکرات کیے اور ایک امریکی-اسرائیلی یرغمال عیدان الیگزینڈر کی رہائی ممکن بنائی

یہ سب کچھ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ٹرمپ نے دوسری مدت صدارت میں "جنگ” کے بجائے "کاروبار” کو ترجیح دی ہے۔

اسرائیل سے فاصلہ یا وقتی تدبیر؟

صہیونی ریاست کے قیام کے بعد شاید یہ پہلا موقع ہے کہ کسی امریکی صدر نے اسرائیل کو اس قدر نظرانداز کیا ہو۔
اپنے چار روزہ مشرق وسطیٰ کے دورے میں ٹرمپ نے سعودی عرب، قطر اور یو اے ای کی میزبانی قبول کی، مگر اسرائیل جانے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہ کی۔ یقیناً یہ بات نیتن یاہو کو ناگوار گزری ہوگی۔

مگر خلیجی ممالک نے اس صورتحال سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔

اگرچہ سعودی عرب نے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی کھلی حمایت نہیں کی، مگر اس کے باوجود ٹرمپ نے سعودی عرب سے ایک غیر فوجی نیوکلیائی معاہدہ طے کر لیا۔

خلیجی ممالک کے معاہدے اور امریکہ کا اسلحہ

اس دورے کے دوران:

  • $600 بلین ڈالر مالیت کے معاہدے کیے گئے

  • جن میں $142 بلین صرف اسلحہ کی فروخت سے متعلق تھے

  • قطر نے 200 بوئنگ طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا

  • قطر کے شاہی خاندان نے ٹرمپ کو $400 ملین مالیت کا ایک جمبو جیٹ بطور تحفہ پیش کیا

اس کے برعکس اسرائیل اب بھی امریکہ سے سب سے زیادہ مالی امداد پانے والا ملک ہے۔ 1951 تا 2022 امریکہ نے اسرائیل کو $317.9 بلین ڈالر کی امداد دی۔

اب یہ ٹرمپ پر منحصر ہے کہ وہ اس پالیسی کو جاری رکھتے ہیں یا خلیجی ممالک سے لین دین کو ترجیح دیتے ہیں۔

فلسطین کے لیے موقع یا پھر خسارہ؟

اگر ٹرمپ خلیجی ممالک سے لینے اور اسرائیل کو دینے کی پالیسی برقرار رکھتے ہیں، تو خلیجی ممالک کو بھی سوچنا ہو گا کہ وہ کب تک ایسے منصوبوں کا حصہ بنے رہیں گے جن سے بالآخر فائدہ اسرائیل کو پہنچتا ہے۔

ٹرمپ نے اپنے حالیہ دورے میں جس طرح اسرائیل کو نظرانداز کیا ہے، اس سے بظاہر یہی تاثر ملتا ہے کہ وہ صہیونی ریاست سے فاصلہ اختیار کر رہے ہیں — جسے نیتن یاہو کی سیاسی ناکامی کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

اب خلیجی ممالک کی حقیقی کامیابی تب ہو گی جب وہ اپنے تجارتی اور ذاتی مفادات کے ساتھ ساتھ ٹرمپ کو بھی مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کے لیے آمادہ کریں — اور غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی کو کسی بھی قیمت پر رکوانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

_____________________________

ڈاکٹر یامین انصاری ایک ممتاز صحافی، مصنف اور روزنامہ انقلاب کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔
_____________________________
یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، جو ضروری نہیں کہ ادارے کے خیالات یا مؤقف کی عکاسی کرتی ہو۔ — ادارے کا ان آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔