منی پور کے شرمناک واقعات اور وائرل ویڈیو پر بحث سے زیادہ ضرورت اس بات پر غور کرنے کی ہے کہ آخر ہم نے کیسا سماج بنایا ہے
منی پور کے ویڈیو نے پورے ملک میں ایک ہیجان کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ریاست کی آدی واسی خواتین کے ساتھ ہونے والے انسانیت سوز واقعہ پر پورا ملک شرمندہ ہے، لوگوں میں غم و غصہ ہے۔ جس نے بھی اس ویڈیو کو دیکھاہے، شرم اور غصہ سے بھر گیا۔ ہر کوئی سوچنے پر مجبور ہے کہ آخر ہمارا سماج کہاں پہنچ چکا ہے۔
اس ملک میں پچھلے کچھ برسوں کے دوران جو بھیڑ اور جو ذہنیت تیار ہوئی ہے یا کی گئی ہے، وہ اس حد تک جا سکتی ہے۔ اس واقعہ نے ملک ہی نہیں پوری دنیا کو جھنجھلا کر رکھ دیا ہے۔ منی پور پچھلے تقریباً تین ماہ سے جل رہا ہے، آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، عورتوں کی عصمت تار تار کی جا رہی ہے، گھروں کو جلایا جا رہا ہے، سڑکوں پر قتل و غارت گری کا ننگا ناچ ہو رہا ہے۔
اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے سے پہلے تک ہر طرف سناٹا تھا، سیاسی گلیاروں سے لے کر سرکاری ایوانوں تک، عدلیہ سے لے کر میڈیا تک سب پر سکوت طاری تھا، ہر طرف خاموشی تھی۔ یہ ایک ویڈیو منظر عام پر آیا ہے، نہ جانے کتنے ویڈیو ہوں گے اور نہ جانے کتنے ایسے واقعات ہوں گے، جو ہمارا سر شرم سے جھکا دیں گے۔ بظاہر تو سر تو ملک کے وزیر اعظم کا بھی شرم سے جھک گیا، مگر واقعہ کے 77 دنوں کےبعد۔
عام طور پر اس طرح کے واقعات پر خاموشی اختیار کر لینے والے وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی اپنی خاموشی توڑنے پر مجبور کر دیا۔ وہ بھی تب جب ملک و بیرون ملک سے اٹھنے والی آوازیں ان کے کانوں میں پڑیں۔ سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئےحکومت کی سخت سرزنش کی اور کارروائی کا انتباہ دیا۔
ماضی کے واقعات معاشرہ کے لئے دعوت فکر
منی پور کے شرمناک واقعات اور وائرل ویڈیو پر بحث کرنے سےزیادہ ضرورت اس بات پر غور و فکر کرنے کی ہے کہ آخر ہم نے کیسا سماج بنایا ہے، جہاں انسانیت مرچکی ہے، ضمیر کو گروی رکھ دیا گیا ہے اور ہمدردی و رواداری دم توڑ رہی ہے۔ اگرایسا ہے تو کیسا سماج، کیسا ملک اور کیسی حکومتیں اور عدلیہ، سب بے معنی ہیں۔ منی پور میں خواتین کے وائرل ویڈیوز دیکھ کرایسا ہی محسوس ہورہا ہے۔ ایک سماج کے طور پرہم نے ماضی کے واقعات سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ نہ تو مذہبی تعصب کو ختم کیا اور نہ ہی ذات برادری کے چشمہ کو اتارا۔
کٹھوعہ کی آصفہ کے ساتھ کیا ہوااور پھر گنہگاروں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا گیا، ہم سب نے دیکھا۔ اناؤ میں دلت بیٹی کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا، سب کو یاد ہوگا۔ 2002 کے بد ترین گجرات فساد کی متاثرہ بلقیس بانو کے ساتھ پہلے کیا گیا اور پھر آج 20 سال کے بعد اس کے گنہگاروں کو کس طرح اعزازو اکرام سے نوازا جا رہا ہے، وہ بھی سب دیکھ رہے ہیں۔
منی پور کا تازہ واقعہ ہی لے لیں۔ حکمراں جماعت کے بڑے بڑے لیڈران اور ان کی ’ٹرول آرمی تک کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ منی پور کی خواتین کے ساتھ یہ شرمناک سلوک کیوں کیا گیا، بلکہ فکر اس بات کی ہے کہ آخر یہ ویڈیو منظر عام پر کیوں اور کیسے آیا؟
یہ سب اسی سماج میں ہو رہا ہے اور ایک خاص ذہنیت کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ایسے میں ہم کیسے امید کر سکتے ہیں مظلومین کو انصاف ملے گا اور گنہگاروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
خواتین نشانۂ تشدد
فسادات، جنگ یا کسی بھی قسم کے تنازعات و تشدد میں خواتین کو اس طرح نشانہ بنانا معمول کا حصہ رہا ہے اور تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ بعض اوقات انصاف کی مشینری اس کو تحفظ فراہم کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ تبھی تو منی پور کا موازنہ دوسری ریاستوں سے کر دیا گیا۔ منی پور کے انسانیت سوز واقعات کا ذکر کرتے ہوئے دیگر ریاستوں کا نام بھی لیا گیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ منی پور پچھلے تین ماہ سے جل رہا ہے، وہیں دیگر ریاستوں میں اس قسم کے ایک دو واقعات ہی ہوئے ہیں، جو نہیں ہونے چاہئے۔
منی پور میں بیشتر مقامات پر انٹرنیٹ خدمات بند ہیں، جبکہ دوسری ریاستوں میں تو ایسا نہیں ہے۔ منی پور میں تو اضافی فورس اور نیم فوجی دستوں کی موجودگی کے باوجود تشدد نہیں رکا، جبکہ دوسری جگہوں پر ایسا نہیں ہے۔ منی پور کے وزیر اعلیٰ خود اعتراف کر رہے ہیں کہ خواتین کے ساتھ ایسے سیکڑوں واقعات ہوئے ہیں۔ کیا دوسری ریاستوں میں بھی ایسا ہی ہے؟ منی پور میں واقعہ کی بمشکل ایف آئی آر درج ہوئی۔ ایف آئی آر ہوئی تو کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ جب تقریباً ڈھائی ماہ کے بعد ویڈیو منظر عام پر آیا تب کچھ گرفتاریاں ہوئیں۔ کیا دوسری ریاستوں میں بھی ایسا ہی ہے؟
دیگر ریاستوں کے واقعات سے موازنہ
منی پور میں اب تک تقریباً ڈیڑھ سو لوگ مارے گئے ہیں، سیکڑوں زخمی ہیں، ہزاروں افراد بے گھر ہیں، کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ بڑی تعداد میں گھر جلائے گئے، مذہبی مقامات جلائے گئے، دوسری ریاستوں میں تو ایسا نہیں ہے۔ پھر آخر دوسری ریاستوں سے منی ور کا موازنہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ کہیں یہ اپنی ناکامی اور گناہوں سے چشم پوشی تو نہیں ہے۔
منی پورتشدد کے پس پشت جتنے سیاسی عوامل کار فرما ہیں، اتنی ہی یہاں کی جغرافیائی صورت حال، ذات برادری اورقبائل آبادی، معدنیات کی دولت وغیرہ بھی اس قضیہ کی بڑی وجہ ہے۔ ایسا صرف منی پور کے ساتھ ہی نہیں ہے، بلکہ مختلف ملکوں اور ریاستوں میں بھی ایسا ہوتاہے۔ جہاں بھی قبائلی اور غریب آبادی والے علاقوں میں قدرتی دولت موجود ہے، وہاں اس کے حصول کے لئے تمام حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔
ایک سروے کے مطابق منی پور کے جنگلات میں تانبے اور پلاٹینم موجود ہے۔ منی پور میں 3 مئی کو تشدد کی شروعات اس وقت ہوئی جب پہاڑی اضلاع میں مئیتی برادری کے درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کے درجہ کے خلاف احتجاج کے لیے ’قبائلی یکجہتی مارچ‘ کا انعقاد کیا گیا۔
قبائلی اختلافات
کوکی اور ناگا کمیونٹی کے لوگ اس فیصلے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ کوکی اور ناگا برادریوں کو ملک کی آزادی کے بعد سے قبائلی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ’سرکاری لینڈ سروے‘ بھی بڑی وجہ مانی جا رہی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ ریاست کی بی جے پی حکومت نے یہاں ایک مہم شروع کی ہے، جس میں قبائل سے’ریزروجنگلاتی علاقہ‘ خالی کرنے کو کہا گیا ہے۔ جس کی کوکی برادری کے لوگ شدید مخالفت کر رہے ہیں۔
مئیتی کو منی پور کی سب سے بڑی برادری کہا جاتا ہے۔ دارالحکومت امپھال میں بھی ان کی بڑی آبادی ہے۔ انہیں عرف عام میں منی پوری کہا جاتا ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق یہ لوگ ریاست کی کل آبادی کا64.6 فیصد ہیں۔ یہ لوگ منی پور کےدس فیصد علاقے میں آباد ہیں۔ ان میئتیوں میں سے زیادہ تر ہندو ہیں اورآٹھ فیصد مسلمان ہیں۔
اس کے علاوہ منی پور قانون ساز اسمبلی میں مئیتی برادری کی نمائندگی بھی زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منی پور کی 60 اسمبلی سیٹوں میں سے 40 امپھال وادی سے ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں زیادہ تر مئیتی لوگ رہتے ہیں۔ دوسری طرف منی پور کی آبادی میں کوکی اور ناگا قبائلی بھی ہیں۔ یہاں ان کی آبادی تقریباً 40 فیصد ہے۔ جن 33 برادریوں کو قبائل کا درجہ ملا ہے۔ ان کا تعلق ناگا اور کوکی-جومی قبائل سے ہے اور یہ زیادہ تر عیسائی ہیں۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق منی پور میں ہندوؤں اور عیسائیوں کی آبادی تقریباً برابر ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ منی پور کی بی جے پی حکومت چاہتی ہے کہ میدانی علاقوں میں رہنے والی میئتی برادری کوایس ٹی کا درجہ دے کر پہاڑوں پر بھی آباد کیا جائے۔ چار مئی کو فسادات بھڑکانے کے لیے ایک فرضی ویڈیو شیئر کیا گیا تھا، جس میں کسی دوسری جگہ کے قتل کے واقعہ کو منی پور کی مئیتی برادری کی خاتون کا بتایا گیا۔ نتیجتاً سیکڑوں مئیتی مردوں نے دوکوکی خواتین کو سرعام برہنہ کیا اور ان کی اجتماعی عصمت دری کی۔
بہر حال، ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ جیسےنعرے بولنے میں تو اچھے لگتے ہیں، خواتین کی فلاح و بہبود اور تحفظ کےلئے زبانی جمع خرچ بھی خوب ہوتا ہے، نئے نئے قوانین بھی بنائے جاتے ہیں، مگر اُس ذہنیت کو تبدیل کرنے کی سنجیدہ ا ور مخلصانہ کوشش نہیں کی جاتی جس کے سبب ایسی گھناؤنی وارداتیں سامنے آتی ہیں۔ انھیں روکنے کے لئے قانون سازوں، قانون کے رکھوالوں اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو جوابدہ بنانا ہوگا۔
اس مضمون میں پیش کئے گئے افکار وخیالات مضمون نگار کے ذاتی ہیں۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں)