اوپن اے آئی کے سیم آلٹمین نے چیٹ جی پی ٹی 5 کو مین ہٹن پروجیکٹ سے تشبیہ دی۔ ماہرین نے ایٹمی جنگ جیسے خطرات کا انتباہ دیا۔ جانیں AI کے فوائد، خطرات اور عالمی سطح پر ضابطوں کی ضرورت۔
اگر مصنوعی ذہانت (AI) کے بے شمار فوائد ہیں تو اس کے بے قابو اور غیر محتاط استعمال سے انسانی زندگی کو سنگین خطرات بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔ بیسویں صدی کے وسط میں جب امریکہ نے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرائے تو بنانے والوں کو بعد میں احساس ہوا کہ انہوں نے کیا کر دیا۔ آج اکیسویں صدی میں ایسے ہی خدشات مصنوعی ذہانت تخلیق کرنے والے ظاہر کر رہے ہیں۔
غزہ میں جاری نسل کشی اس کی تازہ مثال ہے، جہاں ایٹم بم سے پانچ گنا زیادہ بارود گرایا جا چکا ہے۔ دنیا انسانی تاریخ کی سب سے ہولناک تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔
حالیہ دنوں اوپن اے آئی (OpenAI) کے سی ای او سیم آلٹمین نے چیٹ جی پی ٹی 5؍ لانچ کیا، اور اس کا موازنہ "مین ہٹن پروجیکٹ” سے کیا، وہی پروجیکٹ جس کے تحت 1942ء تا 1945ء دنیا کا پہلا ایٹم بم بنایا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ سائنس میں بعض لمحات ایسے آتے ہیں جب تخلیق کار خود سے سوال کرتے ہیں: ہم نے یہ کیا کر دیا؟
سیم آلٹمین کے مطابق جی پی ٹی 5؍ صرف کمپیوٹنگ پاور میں اضافہ نہیں بلکہ ایک ایسا موڑ ہے جہاں ہمیں انسانی اختراع کی سمت پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک پیچیدہ سوال کے جواب میں وہ خود ناکام ہوئے لیکن چیٹ جی پی ٹی 5؍ نے پلک جھپکتے ہی درست جواب دے دیا، اور انہیں محسوس ہوا کہ جیسے وہ خود "بیکار” ہو گئے۔
اعداد و شمار چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں
چیٹ جی پی ٹی روزانہ دنیا بھر میں 250 کروڑ سے زیادہ سوالات یا کاموں کا جواب دے رہا ہے، جن میں سے 33 کروڑ صرف امریکہ سے آتے ہیں۔ دسمبر 2024ء میں یہ تعداد 100 کروڑ یومیہ تھی، یعنی صرف چھ ماہ میں استعمال دوگنے سے بھی زیادہ بڑھ گیا۔ امریکہ میں 70 فیصد سے زیادہ نوجوان چیٹ جی پی ٹی استعمال کر رہے ہیں، اور نصف سے زیادہ باقاعدگی سے۔
یہ رجحان تعلیم، طب، مالیات، نقل و حمل سمیت زندگی کے تقریباً ہر شعبے کو متاثر کر رہا ہے۔ سب سے امید افزا پہلو صحت کی دیکھ بھال ہے، لیکن اس کے بے قابو استعمال سے انسانی خصوصیات کو چیلنج کرنے اور سماجی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے کا خدشہ بھی بڑھ رہا ہے۔
جی پی ٹی 5؍ کی صلاحیتیں اور خطرات
یہ ماڈل ملٹی اسٹیپ ریزننگ، لمبی میموری، اور ملٹی ماڈل صلاحیتیں رکھتا ہے، جو ٹیکسٹ، امیج اور ڈیٹا پروسیسنگ کو ایک ساتھ سنبھالتا ہے۔ تاہم، اگر اس ٹیکنالوجی کو مناسب کنٹرول میں نہ رکھا گیا تو یہ انسانوں کے اختیار سے نکل سکتی ہے۔
سیم آلٹمین کا کہنا ہے کہ اوپن اے آئی کا طویل مدتی ہدف مصنوعی جنرل انٹیلی جنس (AGI) ہے، یعنی ایک ایسی AI جو ہر وہ کام کر سکے جو انسان کر سکتا ہے۔ لیکن اگر اس پر کنٹرول نہ رکھا گیا تو خطرات ناقابلِ تلافی ہوں گے۔
عالمی ماہرین کی تشویش
2023ء کے وسط میں ماہرین نے اتفاق کیا کہ جس رفتار سے AI ترقی کر رہی ہے، یہ دنیا کے خاتمے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ گوگل ڈیپ مائنڈ، اوپن اے آئی اور اینتھروپک کے سربراہان سمیت 350 سے زیادہ سائنسدانوں اور انجینئرز نے اس بیان پر دستخط کیے کہ "جیسے وبائی امراض اور ایٹمی جنگ کے خطرات سے نمٹنا عالمی ترجیح ہے، ویسے ہی AI سے لاحق خطرات کو بھی سنجیدگی سے لینا ضروری ہے۔”
مصنوعی ذہانت کے اس تیز سفر میں قوانین، ضوابط اور عالمی نگرانی وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکی ہے۔
اس مضمون میں پیش کئے گئے افکار وخیالات مضمون نگار کے ذاتی ہیں۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں)