پارلیمنٹ سے ای سی آئی دفتر تک مارچ: اپوزیشن کی طاقت کا مظاہرہ

انڈیا اتحاد کا جمہوریت کی حفاظت کا عزم، اراکین پارلیمنٹ نے ‘ووٹ چوری’ کے خلاف احتجاج کا آغاز کر دیا

آج، دارالحکومت دہلی میں اپوزیشن انڈیا اتحاد کے 300 سے زائد اراکین پارلیمنٹ نے ایک اہم مارچ کا آغاز کیا ہے۔ اس مارچ کی قیادت کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اور لوک سبھا میں حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی کر رہے ہیں۔ مارچ پارلیمنٹ ہاؤس کے مکر دوار سے 11:30 بجے شروع ہوا، اور یہ الیکشن کمیشن کے دفتر کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس احتجاج کا مقصد ‘ووٹ چوری’ کے خلاف آواز بلند کرنا ہے۔ مارچ میں شامل ہونے والوں میں کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے، ایس پی کے سربراہ اکھلیش یادو، اور ٹی ایم سی کے رکن پارلیمنٹ ابھیشیک بنرجی شامل ہیں۔

یہ مارچ ایک ایسا موقع ہے جہاں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما ایک جگہ اکھٹے ہو رہے ہیں تاکہ وہ عوام کے حقوق کی حفاظت کر سکیں۔ راہل گاندھی نے اس موقع پر ایک ویب پورٹل (votechori.in/ecdemand) بھی شروع کیا ہے، جس میں انہوں نے الیکشن کمیشن پر ‘ووٹ چوری’ کے الزامات عائد کیے ہیں۔

مارچ کی اہمیت: ووٹ کی طاقت پر سوال

اس مارچ کے دوران، راہل گاندھی نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ "ووٹ چوری جمہوریت کے خلاف ہے” اور انہوں نے عوامی حمایت کے لیے پورٹل پر رجسٹریشن کی اپیل کی۔ ان کا کہنا ہے کہ "ایک شخص، ایک ووٹ” کا اصول خطرے میں ہے، اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے شفاف ووٹر لسٹ کی ضرورت ہے۔ ان کے دو اہم مطالبات ہیں: مخصوص ووٹر لسٹ کو عام کیا جانا چاہیے اور عوام و سیاسی جماعتوں کو ڈیٹا کا آڈٹ کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔

یہ مارچ اس لیے بھی اہم ہے کہ ملک بھر میں اسمبلی انتخابات کا انعقاد قریب ہے، خاص طور پر بہار میں جہاں انتخابات سال کے آخر میں ہونے ہیں۔ بہار میں اسمبلی انتخابات کے تناظر میں، اپوزیشن اتحاد کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے رد عمل

الیکشن کمیشن نے راہل گاندھی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں حلف نامہ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ الزامات کی حقیقت میں کوئی صداقت نہیں ہے اور انہوں نے راہل گاندھی کے موقف کو "پرانی بوتل میں نئی شراب” کے محاورے سے نوازا ہے۔ بی جے پی نے بھی راہل گاندھی پر آئینی اداروں کو دھمکی دینے اور جھوٹ پھیلانے کا الزام لگایا ہے، اور اس عمل کو انتخابات کے قریب گھبراہٹ قرار دیا ہے۔

بہار میں سیاسی تناؤ کی بات کریں تو، آر جے ڈی کے رہنما تیجسوی یادو نے الزام لگایا ہے کہ ووٹر لسٹ میں بڑے پیمانے پر ہیرا پھیری ہوئی ہے اور ان کے نام کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، آر جے ڈی نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کرتے ہوئے شفافیت اور انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔

ووٹنگ کے حقوق کا تحفظ: اپوزیشن کی کوششیں

الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، یکم سے 10 اگست تک کسی سیاسی جماعت نے باضابطہ اعتراض درج نہیں کرائے، جبکہ اپوزیشن نے الزام لگایا ہے کہ فہرست سے کروڑوں ووٹرز کے نام نکالے گئے ہیں، جس کے نتیجے میں ووٹنگ کا حق متاثر ہوسکتا ہے۔ یہ صورتحال انتخابی عمل میں شفافیت کی ضرورت کو مزید واضح کرتی ہے۔

کئی سیاسی رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مارچ نہ صرف ووٹروں کے حقوق کی حفاظت کے لیے ضروری ہے، بلکہ یہ ان کی آواز کو بھی مضبوط بنائے گا جو جمہوریت کے اصولوں کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اپوزیشن کا عزم ہے کہ وہ اس مسئلے کو بلند آواز میں اٹھائیں گے اور عوامی نمائندگی کو یقینی بنائیں گے۔

عوام کی شمولیت: جمہوریت کی بنیاد

اس مارچ میں عوام کی شمولیت کو بھی خاص طور پر اہمیت دی گئی ہے۔ راہل گاندھی نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس جہد میں ان کا ساتھ دیں اور خود کو اس پورٹل پر رجسٹر کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جمہوریت کو بچانے کی لڑائی ہے، اور عوام کی شمولیت کے بغیر اس میں کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔

آخری الفاظ میں، یہ مارچ ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے کہ کیسے اپوزیشن جماعتیں اپنی قوت کو یکجا کر رہی ہیں اور عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ جمہوریت کی حفاظت کے لیے ہر ایک کو اپنی آواز بلند کرنی ہوگی، اور اس مارچ کے ذریعے اپوزیشن اس مقصد کی جانب ایک قدم اور بڑھ رہی ہے۔

مزید معلومات کے لیے آپ یہاں کلک کر سکتے ہیں اور اس موقعے پر ہونے والے دیگر اہم واقعات کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ آپ ہماری ویب سائٹ پر اس رپورٹ کو بھی دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح اپوزیشن جماعتیں اپنی طاقت کو بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں۔

یہ حالات ملک کی جمہوریت کی بنیادوں کو آزما رہے ہیں، اور اپوزیشن کا یہ اقدام اس کی حفاظت کے لیے ایک اہم اقدام ہے۔