چنار بک فیسٹیول: خسرو فاؤنڈیشن کا چراغِ علم روشن، تو کہیں کتابوں پر پابندی کی دھند چھائی

چنار بک فیسٹیول کے تناظر میں دو متضاد رجحانات: این سی پی یو ایل اور خسرو فاؤنڈیشن کی علمی کاوشیں، اور حکومت کشمیر کی کتابوں پر پابندی۔ جموں و کشمیر میں ریاست مخالف ادبیات کے خلاف 25 کتابیں ضبط

سرینگر کے حسین مناظر میں رواں چنار بک فیسٹیول 2025 جہاں اردو زبان و ادب کا جشن منایا جا رہا ہے، وہیں ایک متضاد منظرنامہ بھی سامنے آ رہا ہے۔ ایک طرف این سی پی یو ایل (نیشنل کونسل فار پروموشن آف اردو لینگویج) اور خسرو فاؤنڈیشن جیسی تنظیمیں علم و ادب کے فروغ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا کو استوار کرنے میں مصروف ہیں، تو دوسری طرف جموں و کشمیر کی انتظامیہ نے ایسے 25 کتابوں پر پابندی عائد کر دی ہے جنہیں وہ "ریاست مخالف بیانیہ” اور "تشدد کی ترغیب” کا ذریعہ قرار دے رہی ہے۔

اردو زبان میں علم و فن کا احیاء

چنار بک فیسٹیول میں این سی پی یو ایل کی مطبوعات نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ اردو محض شاعری اور فکشن کی زبان نہیں، بلکہ سائنسی، سماجی، اور فکری موضوعات پر بھی اس میں معیاری کام ہو رہا ہے۔ یہ ادارہ پورے بھارت بشمول کشمیر میں اردو زبان میں علمی مواد کو فروغ دے کر نہ صرف نئی نسل کو جوڑ رہا ہے بلکہ فکری بیداری کی ایک نئی راہ بھی کھول رہا ہے۔

اسی کے ساتھ، ڈاکٹر حفیظ الرحمن کی قیادت میں خسرو فاؤنڈیشن ایک اور اہم فکری و علمی خدمت انجام دے رہی ہے۔ اس ادارے نے ایسی کتابیں شائع کی ہیں جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی، مذہبی افہام و تفہیم، اور تاریخ کے متوازن بیانیے کو فروغ دیتی ہیں۔ ان میں نمایاں کتاب "تفہیم جہاد"  ہے، جو جہاد کے تصور کو عصری تناظر میں علمی انداز میں پیش کرتی ہے، تاکہ اسے غلط تعبیرات سے بچایا جا سکے۔

ایک اور قابل ذکر اشاعت ایم جے اکبر کی معروف تصنیف The Shade of Swords  کا اردو ترجمہ "تلواروں کے سائے میں"  ہے، جسے جلیس اختر نصیری (راقم) نے اردو قالب میں منتقل کیا ہے۔ یہ کتاب اسلام اور مغرب کے تاریخی تصادم و مفاہمت کا جامع تجزیہ پیش کرتی ہے، اور مغربی سامراج، صلیبی جنگوں، اور جدید سفارت کاری کے پیچیدہ پس منظر کو ایک مربوط بیانیے میں جوڑتی ہے۔

خسرو فاؤنڈیشن کی جانب سے شائع کردہ کتابچہ "غزوۂ ہند" اس فکری تناظر میں نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ کتابچہ مختلف تحقیقی مضامین پر مشتمل ہے اور اسے کنوینر ڈاکٹر حفیظ الرحمن کی ادارت میں ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کتاب کو نوجوانوں، اساتذہ اور دانشوروں میں خاصی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ اگرچہ "غزوہ ہند” پر بہت سی قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں، مگر اس کتاب میں غلط بیانیوں کی اصلاح کی گئی ہے اور صحیح احادیث کی روشنی میں ایک معتدل، محققانہ اور متوازن بیانیہ پیش کیا گیا ہے، جو نوجوان نسل کو افراط و تفریط سے بچاتے ہوئے فہم و تدبر کی طرف راغب کرتا ہے۔

اس کے علاوہ خسرو فاؤنڈیشن نے حالیہ دنوں میں کئی دیگر اہم اور بامعنی کتابیں بھی شائع کی ہیں، جن "اسلام، آمریت اور پسماندگی", "عقیدے کی دراڑیں, "خواتین اور بچوں کا لٹریچر پر مبنی کتب شامل ہیں۔ یہ تمام کتابیں نہ صرف علمی ذخیرے میں قیمتی اضافہ ہیں بلکہ ان میں وہ وسعت فکر بھی موجود ہے جو آج کے نوجوان ذہن کو درکار ہے۔

دوسری جانب: حکومت کا سخت موقف

ان علمی کاوشوں کے برعکس، جموں و کشمیر کی حکومت نے 5  اگست 2023 کو ایک حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت 25 کتابوں کو ضبط کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری کردہ اس حکم میں کہا گیا ہے کہ یہ کتابیں نوجوانوں میں تشدد، دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کو فروغ دے رہی ہیں۔ ان کتابوں کے مصنفین میں اروندھتی رائے، اے جی نورانی، سمنترا بوس، وکٹوریہ شوفیلڈ، اور انورادھا بھسین جیسے عالمی شہرت یافتہ دانشور شامل ہیں۔ یہ کتابیں راؤٹلیج، کیمبرج یونیورسٹی پریس، اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی پریس جیسے باوقار اداروں سے شائع ہو چکی ہیں۔

حکومت کا موقف ہے کہ ان کتابوں میں سیکیورٹی فورسز کی کردار کشی کی گئی ہے، تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے، اور نوجوانوں میں مظلومیت کے جذبات کو ہوا دے کر انہیں ہیرو ازم کی غلط تفہیم دی جا رہی ہے۔ اس کے مطابق، ان کتابوں کے مندرجات ریاستی سالمیت، قومی سلامتی اور سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرہ ہیں۔

علمی اور ادبی حلقوں کا ردعمل

ادبی حلقوں، ماہرین تعلیم، اور سول سوسائٹی کی طرف سے اس اقدام پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ جہاں کچھ حلقے اسے قومی سلامتی کے تناظر میں درست اقدام سمجھتے ہیں، وہیں دیگر دانشور اسے اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق، نوجوانوں کو فکری آزادی دینا ہی انہیں انتہا پسندی سے بچانے کا اصل حل ہے، نہ کہ ان کے مطالعے پر پہرے بٹھانا۔

خسرو فاؤنڈیشن کا متبادل بیانیہ

ان حالات میں خسرو فاؤنڈیشن اور این سی پی یو ایل جیسے ادارے ایک متوازن اور مثبت بیانیہ فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خسرو فاؤنڈیشن کی مطبوعات، خاص طور پر "تفہیم جہاد” اور "تلواروں کے سائے میں”، ایسے فکری متون ہیں جو نہ صرف نوجوانوں کو مذہب، تاریخ اور سیاست کا صحیح فہم دیتے ہیں بلکہ بین المذاہب افہام و تفہیم کو بھی فروغ دیتے ہیں۔

یہ کتابیں جذباتی نعروں کی بجائے ٹھوس علمی بنیاد پر مکالمے کی دعوت دیتی ہیں۔ کشمیر جیسے حساس خطے میں ان کا شائع ہونا اس بات کا غماز ہے کہ اب بھی یہاں ایسی فضا موجود ہے جہاں علم، دلیل، اور مکالمہ کو جگہ مل سکتی ہے۔

کتابوں پر پابندی عائد کرنے کا حکومتی فیصلہ ایک وقتی اقدام تو ہو سکتا ہے، مگر یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ کیا اس سے واقعی نوجوانوں میں تشدد کے رجحانات ختم ہوں گے؟ یا پھر اس سے مزید ردعمل اور احساسِ محرومی پیدا ہوگا؟ کیا بہتر یہ نہیں کہ علمی بیانیے کا جواب بھی علمی انداز میں دیا جائے؟

وقت کا تقاضا ہے کہ ایسے علمی پلیٹ فارمز کو فروغ دیا جائے جو نوجوانوں کو انتہا پسندی، مایوسی، اور جذباتی استحصال سے نکال کر سوچنے، سمجھنے، اور سوال کرنے کی راہ دکھائیں۔ چنار بک فیسٹیول میں خسرو فاؤنڈیشن اور این سی پی یو ایل کی شرکت ایک روشن مثال ہے کہ علم کی شمع اب بھی جل رہی ہے – بس اسے ہواؤں سے بچانے کی ضرورت ہے، راکھ میں دفنانے کی نہیں۔

حکومت کی جانب سے ضبط کی گئی کتابیں عالمی سطح پر معروف مصنفین اور محققین کی تحریریں ہیں۔ ان کتابوں کی اشاعت راؤٹلیج، کیمبرج یونیورسٹی پریس، اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی پریس جیسے ممتاز علمی اداروں کے تحت ہوئی ہے، جو خود ان کے علمی معیار اور تحقیقی گہرائی کی گواہی دیتے ہیں۔

سرکاری موقف کے مطابق، یہ کتابیں ریاست کے خلاف نفرت کو فروغ دیتی ہیں، تاریخی حقائق کو مسخ کرتی ہیں، سیکیورٹی فورسز کو منفی انداز میں پیش کرتی ہیں، اور نوجوانوں میں دہشت گردی کو ہیرو ازم کے طور پر دکھاتی ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ایسی تحریریں نوجوانوں کی ذہنی ساخت کو بگاڑتی ہیں اور انہیں شدت پسندی کی طرف مائل کرتی ہیں۔

ادبی و علمی حلقوں میں اس اقدام پر شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔ بہت سے دانشوروں اور قلمکاروں نے اسے اظہار رائے کی آزادی کے خلاف قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، اگر کوئی بیانیہ قابلِ اعتراض ہے تو اس کا جواب بھی دلیل اور تحقیق سے دیا جانا چاہیے نہ کہ اسے ضبط کر کے خاموش کرا دیا جائے۔

اسی پس منظر میں خسرو فاؤنڈیشن جیسی تنظیموں کی کاوشیں اس بات کا پیغام ہیں کہ نوجوانوں کی فکری رہنمائی علم، مکالمے اور باہمی احترام کے ذریعے ہی ممکن ہے، نہ کہ سنسرشپ اور قدغنوں کے ذریعے۔