راہل گاندھی نے امریکی ٹیرف کی مخالفت کی، مودی کو خبردار کیا
ہندوستانی سیاست کے معروف رہنما راہل گاندھی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کو اپنی کمزوریوں کو ہندوستانی عوام کے مفادات پر غالب آنے نہیں دینا چاہیے۔ ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ہندوستان پر اضافی محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا۔ راہل گاندھی نے اپنے سوشل میڈیا پر کہا، “ٹرمپ کا 50 فی صد ٹیرف اقتصادی بلیک میل ہے۔ یہ ہندوستان کو غیر منصفانہ تجارتی معاہدے میں دھونس دینے کی کوشش ہے۔”
یہ ٹیرف امریکہ کی جانب سے نافذ کی جانے والی نئی تجارتی پالیسی کا حصہ ہے، جس کی بنیاد 2022 میں اعلان کردہ قومی ایمرجنسی ہے۔ اس ایمرجنسی کے پس منظر میں، امریکہ نے روسی تیل کی درآمدات پر پابندی لگائی تھی۔ حالیہ دنوں میں، امریکہ نے ہندوستان کی تیل کی درآمدات کو نشانہ بنایا، جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات میں تناؤ بڑھ رہا ہے۔
کون، کیا، کہاں، کب، کیوں، اور کیسے؟
کون: راہل گاندھی، ہندوستانی کانگریس کے رہنما، جو موجودہ سیاسی ماحول میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
کیا: انہوں نے امریکہ کی جانب سے عائد کردہ اضافی ٹیرف کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
کہاں: یہ معاملہ ہندوستان کی مرکزی حکومت کے حوالے سے ہے، خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے۔
کب: یہ تمام صورت حال اس وقت پیش آئی جب ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے تجارتی اعلان میں بھارت کو نشانہ بنایا۔
کیوں: ٹرمپ کا یہ کہنا ہے کہ ہندوستان روس سے تیل خرید رہا ہے اور اس کے نتیجے میں روس کو معاشی فائدہ ہو رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکی حکومت نے اضافی محصولات عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔
کیسے: راہل گاندھی کے مطابق، مودی کو اس اقتصادی بلیک میلنگ کے سامنے جھکنے سے گریز کرنا چاہیے اور ہندوستانی قوم کے مفادات کا دفاع کرنا چاہیے۔
ہندوستان نے اس معاملے پر اپنا موقف واضح کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ “ہمارے تیل کی درآمدات مارکیٹ پر مبنی ہیں اور اس کا بنیادی مقصد 140 کروڑ ہندوستانیوں کی توانائی کی حفاظت کرنا ہے۔” ہندوستانی حکومت نے یہ بھی بتایا کہ امریکی اقدامات غیر منصفانہ ہیں اور وہ اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گی۔
امریکہ کی جانب سے ٹیرف کا اعلان
امریکا کی جانب سے یہ نئے ٹیرف 27 اگست 2025 سے نافذ العمل ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس تاریخ سے ہندوستان سے امریکہ بھیجی جانے والی اشیا پر 25 فیصد اضافی ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ یہ قدم ہندوستانی برآمدات پر منفی اثر ڈال سکتا ہے، خاص طور پر ان اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کی صورت میں جو امریکہ کو برآمد کی جا رہی ہیں۔
راہل گاندھی نے یہ بھی کہا کہ “ہمیں اپنے اقتصادی مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنی تجارتی حکمت عملیوں کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ ہمیں اس قسم کے غیر منصفانہ اقدامات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔”
ہندوستانی حکومت کا جواب
ہندوستانی حکومت نے اس صورت حال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ بین الاقوامی تجارتی قوانین کے تحت اپنے حقوق کا دفاع کرے گی۔ حکومتی بیان کے مطابق، “یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ امریکہ نے ہندوستان پر ایسے اقدامات کے لیے اضافی محصولات عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کئی دوسرے ممالک بھی اپنے قومی مفاد میں اپنا رہے ہیں۔”
بھارت نے واضح کیا ہے کہ یہ تمام اقدامات بین الاقوامی تجارتی معاہدوں کے خلاف ہیں اور اس کے اثرات کا بغور جائزہ لیا جائے گا۔
آنے والے مسائل
حکومت کی طرف سے دی جانے والی معلومات کے مطابق، یہ اضافی محصولات نہ صرف برآمدات متاثر کرسکتے ہیں بلکہ یہ اندرونی مارکیٹ میں بھی قیمتوں میں اضافہ کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس کے اثرات کا اندازہ کرنے کے لیے ماہرین اقتصادیات نے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
ہندوستان کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لیے حکومتی پالیسیوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جو ملکی معیشت کے استحکام کے لیے معاون ثابت ہوں۔
آگے کا راستہ
اس صورتحال میں، راہل گاندھی کی باتیں ہندوستانی عوام کی آواز کی عکاسی کرتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت مضبوطی کے ساتھ اپنے مفادات کا دفاع کرے، چاہے وہ بین الاقوامی سطح پر ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے لیے، حکومتی پالیسیوں میں تبدیلی کی ضرورت ہوگی تاکہ ملکی معیشت کو محفوظ بنایا جا سکے، اور عوام کے مفادات کو برقرار رکھا جا سکے۔
ہندوستانی عوام کو بھی اس بات پر دھیان دینا چاہیے کہ ان کے رہنما کس طرح کام کر رہے ہیں اور ان کو سوالات اٹھانے چاہیے تاکہ وہ جان سکیں کہ ان کے منتخب نمائندے ان کے مفادات کا کس حد تک دفاع کر رہے ہیں۔
یہ کارروائییں موجودہ سیاسی منظر نامے میں صرف ایک پہلو ہیں، مگر یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اندرونی اور بیرونی چیلنجز کے بیچ، ہندوستان کی حکومت کو کتنا محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔