ایران کا معیشتی اور سیاسی بحران: آیت اللہ خامنہ ای کی غیرموثر حکمت عملی کی قیمت

ایک خوفناک حقیقت: ایرانی عوام کا بحران

ایران، ایک ایسا ملک جس نے تاریخ کے مختلف ادوار میں مشرق وسطیٰ کی سیاست میں نمایاں کردار ادا کیا، آج اپنے بحرانوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ ایرانی عوام، خاص طور پر نوجوان نسل، اپنے حقوق اور بنیادی سہولیات کی کمی کے باعث سخت اضطراب میں مبتلا ہیں۔ آج کی ایرانی حکومت کی پالیسیوں پر عوام کا غصہ عروج پر ہے، اور یہ غم و غصہ ملک کی مستقبل کی سمت کا تعین کر رہا ہے۔

بنیادی مسائل کی جانچ

ایران کی موجودہ حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی نے اسے عالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے۔ بین الاقوامی پابندیاں، اقتصادی دشواریوں، اور مہنگائی نے عوام کی روزمرہ زندگی کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے۔ ایران کی معیشت حالیہ عرصے میں اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ عوام کی حالت زار بتاتی ہے کہ وہ کس قدر بے بسی میں زندگی گزار رہے ہیں۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایرانی حکومت نے اپنے اتحادیوں سے تعلقات کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ چین اور روس جیسے طاقتور ممالک بھی اب ایران کی حمایت کرنے میں hesitant ہیں۔ ان کا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایران کو صرف وقتی بنیادوں پر ہی دیکھتے ہیں، جب کہ ایران کی ضرورتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔

داخلی خلفشار اور عوامی عدم اطمینان

ایران کی معاشرتی اور سیاسی زندگی میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ واضح ہوتا ہے کہ لوگ اب حکومت کے ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ عوامی مظاہرے، جو کہ دور دور تک پھیل چکے ہیں، اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ایرانی عوام اپنی زندگی کی بہتری کے لیے اپنی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

ایران میں موجود سیاسی طاقتیں، جیسا کہ پاسدارانِ انقلاب، بھی اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جب عوامی غصہ شدت اختیار کرے گا تو وہ خود قیادت کی تبدیلی کا مطالبہ کر سکتے ہیں، جو کہ ایک نرم بغاوت کی صورت میں سامنے آ سکتی ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای کی حکمت عملی کی ناکامی

آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت میں ایران کی پالیسیوں نے نہ صرف ملکی سطح پر مسائل پیدا کیے ہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کی حیثیت کو متاثر کیا ہے۔ کئی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ خامنہ ای کی موجودہ حکمت عملی میں مایوسی اور جمود کی کیفیت نظر آتی ہے، جو ایرانی عوام کو مزید مایوس کر رہی ہے۔

یہ بات ابکھری ہوئی ہے کہ اگر ایران نے کوئی حتمی تبدیلی نہ کی تو اسے مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایران کو اب ایک نئے سپریم لیڈر کی ضرورت ہے، جو عوام کے ساتھ ہم آہنگ ہو اور جو عالمی سیاست کے نئے تقاضوں کے مطابق اپنے ملک کی پالیسیوں کو ترتیب دے سکے۔

بکھرتا ہوا دفاعی نظام

ایران کے بیرونی خطرات، خاص طور پر اسرائیل کی جانب سے بڑھتے ہوئے حملے، نے ایران کے دفاعی نظام کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ ایران کو اس وقت سخت چیلنجز کا سامنا ہے، جیسا کہ شام میں اسرائیلی حملے اور داخلی سطح پر بڑھتی ہوئی مخالفت۔

ایران کا دفاعی نظام، جو کبھی ایک مضبوط اور بااثر صلاحیت خیال کیا جاتا تھا، اب مایوسی کا شکار ہو چکا ہے۔ ممکنہ جنگ یا کسی بھی قسم کی طاقتور کارروائی کا خطرہ اسے مزید کمزور کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں ایران کو اقتصادی اور عسکری دونوں سطحوں پر شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مذاکرات کا امکان

ایران کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہے کہ ایران کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر آنا پڑے گا۔ تاہم، اس کے لیے ایک بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہوگی تاکہ عوامی خواہشات اور ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ نئے معاہدے یا ایٹمی ڈیل کے لیے ایرانی حکومت کو اندرونی سیاسی استحکام حاصل کرنا ہوگا، جو کہ موجودہ حالات میں ناممکن نظر آتا ہے۔

یہ تبدیلی ایران کے موجودہ لیڈر شپ کے ایک نئے نظریے پر منحصر ہے، جو عوامی جذبات کو سمجھتے ہوئے عالمی سطح پر ایک مثبت تصویر پیش کر سکے۔

ایران کی مستقبل کی راہ

ایران آج ایک نازک دور میں کھڑا ہے۔ یا تو وہ اصلاحات کی جانب بڑھے گا یا پھر داخلی انارکی میں پھنس کر اپنی علاقائی حیثیت کھو دے گا۔ اس کی عظیم تاریخ اور وسائل کو ایک جدید قیادت کی ضرورت ہے جو ملک کو ایک نئی سمت میں لے جا سکے۔

ایران کو اب بصیرت اور دانش کی ضرورت ہے، نہ کہ نظریاتی تنگ نظری کی۔ اگر ایران نے یہ تبدیلیاں نہ کیں تو یہ اپنے عظیم ماضی کو کھو دے گا اور اس کی شناخت ان بحرانوں میں دب جائے گی جو اس نے خود پیدا کیے ہیں۔

مزید معلومات کے لئے ہماری معاشی حالت اور سیاسی چیلنجز پر نظر ڈالیں۔ اس کے علاوہ، مزید تفصیلات کے لئے دیکھیں بی بی سی اور الجزیرہ۔

ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔