مذہبی شادی کے حق میں عدالت کا تاریخی فیصلہ، مسلم نوجوان کو ملی ضمانت

نئی دہلی: سپریم کورٹ کا فیصلہ

سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں مسلم نوجوان کو ضمانت دی ہے، جس نے ایک ہندو لڑکی سے شادی کی تھی اور اس پر مذہبی شناخت چھپانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں عدالت نے کئی اہم نکات پر روشنی ڈالی ہے، خاص طور پر یہ کہ دو بالغ افراد کے درمیان باہمی رضا مندی سے تعلقات قائم کرنے پر مذہب کی بنیاد پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ یہ واقعہ اتراکھنڈ میں پیش آیا، جہاں ایک شخص تقریباً چھ ماہ سے جیل میں بند تھا۔ عدالت کے اس فیصلے نے بین مذہبی شادیوں کے حق میں ایک مثبت پیغام بھیجا ہے۔

کیس کا پس منظر

یہ کیس اس وقت شروع ہوا جب مسلم نوجوان، جس کا نام صدیقی ہے، نے ایک ہندو لڑکی سے پہچان چھپاتے ہوئے شادی کی۔ اسے اتراکھنڈ فریڈم آف ریلیجن 2018 اور بھارتیہ نیائے سنہتا 2023 کے تحت گرفتار کیا گیا۔ اس کے خاندان والوں اور اہلیہ نے شادی کو قبول کیا تھا اور عدالت میں یہ واضح کیا کہ ان کی شادی مکمل طور پر دونوں کے والدین کی رضا مندی سے ہوئی۔ اس کے باوجود، کچھ لوگوں اور تنظیموں نے اس پر اعتراض کیا اور بعد میں اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ

جسٹس بی وی ناگرتنا اور ستیش چندر شرما پر مشتمل بنچ نے نوجوان کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کی۔ عدالت نے قرار دیا کہ ریاست کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی بالغ کے اپنے آپسی تعلقات میں مداخلت کرے، خاص کر جب وہ دونوں بلکل بالغ ہوں اور ان کی شادی میں دونوں خاندانوں کی رضامندی شامل ہو۔ یہ بات واضح کی گئی کہ عدالت کو یقین دلایا گیا کہ نوجوان نے اپنی اہلیہ کو مذہب تبدیل کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا اور اس نے ایک حلف نامہ بھی پیش کیا کہ وہ اپنی بیوی کی مذہبی آزادی کا احترام کرے گا۔

بین مذہبی شادی کی اہمیت

یہ فیصلہ بین مذہبی شادیوں کے حق میں ایک اہم قدم ہے، جو کہ ہماری معاشرتی روایات میں ایک حساس موضوع ہے۔ بہت سے لوگ آج بھی بین مذہبی شادیوں کے خلاف ہیں اور انہیں سماجی طور پر قبول نہیں کرتے۔ لیکن اس فیصلے نے یہ واضح کیا ہے کہ قوانین کے تحت ہر فرد کو اپنے شریک حیات کے انتخاب میں مذہب کی بنیاد پر کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔

اس فیصلے کو دیکھتے ہوئے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اب مستقبل میں بین مذہبی شادیوں کے لیے ایک نیک نیتی کی بنیاد فراہم کرے گا؟ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے فیصلے عدلیہ کی طرف سے ایک مضبوط پیغام فراہم کرتے ہیں کہ قانون ہر ایک کی شراکت داری کے اختیار کا احترام کرتا ہے، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔

کیا ریاست کی مداخلت درست ہے؟

اسی دوران، بعض لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا ریاست کا کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرنا صحیح ہے؟ کچھ افراد کا ماننا ہے کہ ریاست اس طرح کے معاملات میں مداخلت کر کے فرد کی آزادیوں میں کمی لا سکتی ہے۔ تاہم، سپریم کورٹ نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ بالغ افراد کو اپنے تعلقات میں آزادی حاصل ہونی چاہیے اور ریاست کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے۔

ایک نئی شروعات کا آغاز

یہ فیصلہ نہ صرف اس نوجوان کے لیے بلکہ ان تمام افراد کے لیے ایک امید کی کرن ہے جو بین مذہبی شادیاں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اسپیشل رپورٹ کے مطابق، اس فیصلے نے بین مذہبی شادیوں کی قانونی حیثیت کو مزید مضبوط کیا ہے اور میڈیا میں بھی یہ ایک مثبت بحث کا آغاز کرے گا۔

ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔