آج سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی قانون کی اہم سماعت
آج عدالت عظمیٰ میں ‘وقف (ترمیمی) قانون، 2025‘ کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔ حکومت کی جانب سے دی جانے والی دلائل میں یہ خاص بات سامنے آئی کہ وقف اسلام کا ایک لازم جزو نہیں ہے، بلکہ یہ محض عطیہ کی ایک شکل ہے۔ چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ کے سامنے مرکزی حکومت کی طرف سے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے اپنی دلائل پیش کیں، جن میں انہوں نے کئی اہم نکات اٹھائے۔
سماعت کا پس منظر اور اہمیت
یہ سماعت اس وقت ہو رہی ہے جب مختلف افراد اور جماعتوں نے وقف ترمیمی قانون کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔ یہ قانون کئی ایسے مسائل کو جنم دے رہا ہے، جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام شہریوں کے حقوق کو متاثر کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر یہ جاننا ضروری ہے کہ اس قانون کی روح کیا ہے اور اس کے نافذ ہونے سے ملک کی مذہبی اور ثقافتی آزادیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
مرکزی حکومت کا مؤقف
تشار مہتا نے اپنی گفتگو کے آغاز میں کہا کہ جو لوگ اس قانون کو چیلنج کر رہے ہیں، ان میں سے کوئی بھی متاثرہ فریق نہیں ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ پارلیمنٹ کو قوانین بنانے کا کامل اختیار حاصل ہے، اور یہ سوال کہ پارلیمنٹ کو یہ اختیار ہے یا نہیں، ایک غیر اہم سوال ہے۔ انہوں نے مزید یہ کہا کہ بعض درخواست دہندگان پورے مسلمان طبقے کی نمائندگی نہیں کر سکتے۔
تشار مہتا نے یہ بھی واضح کیا کہ وقف بائی یوزر کا اصول بنیادی حقوق میں شامل نہیں ہے اور یہ صرف ایک عطیہ کا طریقہ ہے، جیسا کہ دوسرے مذاہب میں بھی ہوتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اسے مذہب کا لازمی حصہ بناتی ہو۔
قانون کی تنقید
حکومت کی جانب سے پیش کی گئی دلائل میں کہا گیا کہ وقف کا تصور صرف ایک افسانہ ہے اور اصل حقیقت یہ ہے کہ وقف کی جائیداد کا استعمال کرنے کا حق کسی اور کی ملکیت نہیں ہے۔ سالیسیٹر جنرل نے وضاحت کی کہ اگر کسی عام شہری کو ملکیت کا حق دینا ہے تو اس کے لیے اسے رجسٹرڈ ہونا چاہیے۔ ورنہ یہ غیر قانونی ہو گا۔
چونکہ وقف کی جائیدادیں ملکیت کے طور پر کسی دوسرے فرد کی ہوتی ہیں، اس لیے حکومت کے پاس ان کی نگرانی کا حق ہے۔ تشار مہتا نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی مذہبی ادارہ ٹرسٹ کے تحت کام کر رہا ہے تو اسے یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا وہ واقعی وقف کی ملکیت ہے یا نہیں۔
عدالت کے سوالات
سماعت کے دوران چیف جسٹس گوئی نے بھی سوالات اٹھائے اور تشار مہتا کی وضاحتوں پر سوالات کیے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اگر کلکٹر کے پاس جائیداد کی جانچ کرنے کا اختیار ہے تو پھر وہ حکومت کے کنٹرول میں چلی جائے گی؟
تشار مہتا نے جواب میں کہا کہ کلکٹر صرف ایک کاغذی انٹری کرے گا، لیکن اگر حکومت کو کوئی حق چاہیے تو اسے ٹائٹل کے لیے مقدمہ دائر کرنا ہوگا۔
سماعت کا مقصد
یہ سماعت اس بات کا تعین کرنے کے لیے ہے کہ آیا یہ قانون عوامی مفاد میں ہے یا نہیں، اور اس کے نتیجے میں کیا سرکاری ملکیتوں کی تقسیم میں تبدیلی آئے گی۔ حکومت کی جانب سے پیش کردہ دلائل میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اگر معاملات کو اس طرح چلانے دیا گیا تو یہ عام شہریوں کے حقوق کو محدود کر سکتا ہے۔
آگے کا راستہ
اس معاملے میں ابھی بہت سے سوالات باقی ہیں جو عدالت عظمیٰ کے سامنے ہونے ہیں۔ کیا حکومت اپنی مرضی سے قانون کو نافذ کرنے کا حق رکھتی ہے، یا مذہبی اداروں اور ان کے حقوق کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے؟ یہ سوالات ہی آئندہ کے قانونی فیصلوں کی بنیاد بنیں گے۔
ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔