ڈیپ فیک ویڈیوز پر قانون سازی کے معاملے میں سپریم کورٹ کی اہم فیصلہ، دہلی ہائی کورٹ کی جانب رجوع کی ہدایت

نئی دہلی:

سپریم کورٹ نے کرنل صوفیہ قریشی کی ڈیپ فیک ویڈیوز کے حوالے سے دائر عوامی مفاد کی درخواست (پی آئی ایل) کو جمعہ کے روز مسترد کردیا۔ عدالت نے درخواست گزار نریندر کمار گوسوامی کو ہدایت دی کہ وہ دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کریں، جہاں اس قسم کے مقدمات پہلے ہی زیرِ سماعت ہیں۔

موجودہ حالات میں، گوسوامی نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ڈیپ فیک اور مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی مدد سے بنائی گئی فرضی ویڈیوز کے خلاف ایک ماڈل قانون تیار کرنے کے لئے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دے، جس کی نگرانی خود عدالت کرے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ کرنل قریشی کی فرضی ویڈیوز کی آن لائن گردش ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس کا جلد از جلد حل ہونا ضروری ہے۔

ڈیپ فیک کا مسئلہ: وجوہات اور اثرات

سپریم کورٹ کے بنچ میں جسٹس سوریا کانت اور جسٹس این کوٹیسور سنگھ شامل تھے۔ انہوں نے درخواست گزار کے دلائل کو سنا اور کہا کہ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، لیکن دہلی ہائی کورٹ پہلے ہی ایسے معاملات پر غور کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر سپریم کورٹ اس درخواست پر عمل درآمد کرتی ہے تو یہ دہلی ہائی کورٹ میں جاری کارروائی کو متاثر کر سکتا ہے۔

عدالت نے اس بات کا ذکر بھی کیا کہ اگرچہ یہ درخواست اہم ہے، لیکن سب سے بہتر یہی ہوگا کہ درخواست گزار دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کریں اور وہاں اپنی تجاویز پیش کریں، تاکہ ایک ہی موضوع پر متوازی کارروائی سے بچا جا سکے۔

یہ فیصلہ اُس وقت آیا ہے جب دہلی ہائی کورٹ نے ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والے خطرات کے پیش نظر مرکزی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، ٹیلی کام سروس فراہم کنندگان، اور متاثرہ افراد کے ساتھ مشاورت کرے۔ مرکزی حکومت نے عدالت کو بتایا کہ وزارت الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی (MeitY) نے نومبر 2024 میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، جس میں مختلف شعبوں کے ماہرین شامل ہیں۔

ڈیپ فیک کی خطرناک خصوصیات

ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے کسی بھی فرد کی اصلی ویڈیو یا تصویر میں تبدیلی کر کے اُس کی جگہ کسی اور کا چہرہ لگا دیا جا سکتا ہے، جس کی وجہ سے غلط معلومات پھیل سکتی ہیں اور افراد کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ حالیہ مہینوں میں کئی مشہور شخصیات اس خطرناک رجحان کا شکار ہو چکی ہیں، جس سے اس مسئلے کی سنگینی میں اضافہ ہوا ہے۔

عدالت نے اس سلسلے میں مزید کہا کہ اس طرح کی نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کو کنٹرول کرنے کے لیے مناسب قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ عوامی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔

عدالت کا فیصلہ اور مستقبل کی توقعات

سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عدالتیں ڈیپ فیک اور اے آئی سے متعلق مسائل کو سنجیدگی سے لے رہی ہیں اور ان کے حل کے لیے مناسب فورمز کی نشاندہی کر رہی ہیں۔ خصوصاً اس معاملے میں دہلی ہائی کورٹ کی موجودہ کارروائیاں اہمیت رکھتی ہیں۔

دہلی ہائی کورٹ کے سامنے اب یہ سوال ہے کہ وہ اس مسئلے کے خلاف کیا اقدامات کرے گی اور مرکز کس طرح اس معاملے میں تعاون کرے گا۔ کیونکہ عدالت کی ہدایت کے مطابق، متاثرہ افراد اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کرنا ضروری ہے تاکہ معاشرتی سطح پر اس مسئلے کو مؤثر طریقے سے حل کیا جا سکے۔

یہ بھی دیکھا جانا باقی ہے کہ آیا مرکزی حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی اپنی رپورٹ کو مقررہ وقت میں پیش کرے گی یا نہیں، اور آیا کہ اس رپورٹ کی بنیاد پر کوئی مؤثر قانون بنا جا سکے گا یا نہیں۔

مشہور شخصیات کی ڈیپ فیک ویڈیوز کی مثالیں جہاں تک پہنچ چکی ہیں، ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ کیا ہم واقعی اس خطرے کو سمجھ رہے ہیں یا اس کے ممکنہ نتائج کی طرف مکمل طور پر توجہ دی جا رہی ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے تمام متعلقہ فریقین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک ساتھ مل کر کام کریں۔

ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔