کرنل صوفیہ قریشی کے خلاف بی جے پی وزیر کا بیان: ہائی کورٹ کی سخت نکتہ چینی
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے بی جے پی کے وزیر وجے شاہ کے خلاف کرنل صوفیہ قریشی کے تعلق سے درج ایف آئی آر کو ‘حکومت کی سنگین دھوکہ دہی’ قرار دیتے ہوئے پولیس کی کارکردگی پر تنقید کی ہے۔ یہ معاملہ اس وقت منظر عام پر آیا جب وزیر شاہ نے ایک عوامی جلسے میں کرنل صوفیہ قریشی کو ‘دہشت گردوں کی بہن’ کہہ دیا، جس پر عدالت نے از خود نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا۔ یہ واقعہ 2023 کے آغاز میں ہوا، جس کے بعد وزیر شاہ نے اس معاملے کو چیلنج کرنے کے لیے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔
یہ معاملہ نہ صرف قانونی طور پر اہم ہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش کی حکومت کی جانب سے ہونے والی سنگین دھوکہ دہی کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے۔ ہائی کورٹ نے اس معاملے کی سنجیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر میں قانونی بنیادیں کمزور ہیں اور اس میں بیان کردہ تفصیلات ناکافی ہیں۔ عدالت نے واضح کیا کہ اگر یہ معاملہ عدالت میں پہنچتا ہے تو اسے آسانی سے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
کیا ہوا؟
وزیر وجے شاہ نے کرنل صوفیہ قریشی کے خلاف متنازع بیان دیا جس کے بعد کے واقعہ میں ایف آئی آر درج کرائی گئی۔ ہائی کورٹ نے اس معاملے کے حوالے سے پولیس کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے ہیں اور کہا کہ اس طرح کے معاملات میں انصاف کی فراہمی ضروری ہے۔ عدالت نے ایف آئی آر کی تفصیلات کو کمزور قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ یہ ایک سنگین دھوکہ دہی ہے۔
یہاں یہ معاملہ کیوں اہم ہے؟
مدھیہ پردیش کی حکومت کی اس حرکت نے نہ صرف سیاسی حلقوں میں ہنگامہ کھڑا کیا بلکہ اس سے فوجی افسران کی عزت اور ان کے حقوق کی پاسداری کی بھی بات کی گئی۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاسی بیانات کی ذمہ داری کس حد تک ہوتی ہے اور ان کے اثرات کیا ہوسکتے ہیں۔
عدالت کا کیا کہنا ہے؟
ہائی کورٹ کی بنچ نے کہا کہ ‘ہم تفتیشی ایجنسی کی آزادی میں مداخلت نہیں کریں گے، مگر اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ تفتیش کسی بھی قسم کے سیاسی دباؤ سے آزاد ہو کر کی جائے۔’ یہ بات عدالت کی جانب سے انصاف کی فراہمی کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ پولیس کو درست طور پر اس معاملے کی نگرانی کرنی چاہیے تاکہ انصاف کی فراہمی ممکن ہو۔
آنے والے دنوں میں کیا متوقع ہے؟
وزیر وجے شاہ نے اس معاملے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس پر جلد سماعت متوقع ہے۔ ہائی کورٹ نے 16 جون کو اس معاملے کی اگلی سماعت کا اعلان کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ یہ معاملہ جاری رہے گا تاکہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔
یہ واقعہ صرف ایک قانونی کشمکش تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ اہم سوالات بھی پیدا کرتا ہے کہ کیا اس طرح کے بیانات دینا سیاسی رہنماؤں کا حق ہے یا یہ خاص طور پر سرکاری افسران کی توہین کے مترادف ہے۔
سماجی اور سیاسی مضمرات
کرنل صوفیہ قریشی کے ساتھ یہ واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومتیں کس طرح بعض اوقات اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے قانونی تطہیر کا سہارا لیتی ہیں۔ اس طرح کے بیانات سے نہ صرف فوجی آنر کی توہین ہوتی ہے بلکہ یہ ملک کی اندرونی سیکیورٹی کے حوالے سے بھی چیلنجز پیدا کرتے ہیں۔
قانونی پہلو
ایف آئی آر میں بی این ایس کی دفعات 152، 196(1)(بی) اور 197(1)(سی) شامل ہیں، جو ریاستی سالمیت، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، اور امن عامہ کے خلاف بیانات پر مبنی ہیں۔ یہ دفعات اس بات کو یقینی بنانے کے لیے وضع کی گئی ہیں کہ سیاسی بیان بازی قانون کے دائرے میں رہے۔
پولیس کے کردار پر سوالات
ہائی کورٹ نے اس بات پر سوال اٹھایا ہے کہ کیا پولیس نے اس معاملے کی جانچ میں مناسب طریقہ کار اپنایا؟ یہ سوالات اس وقت اٹھائے گئے جب عدالت کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں قانونی بنیادیں کمزور ہیں اور یہ درست طریقے سے مرتب نہیں کی گئی۔ اس کی روشنی میں، یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر تفتیشی ایجنسی درست طریقہ اختیار نہیں کرتی تو انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔
مستقبل میں ممکنہ اقدامات
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے اس معاملے کی نگرانی جاری رکھنے کا وعدہ کیا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی بھی سیاسی دباؤ یا بیرونی اثرات تفتیش پر اثر انداز نہ ہوں۔ عدالت نے کہا کہ تفتیشی ایجنسی کو مکمل آزادی ملنی چاہیے لیکن اس کی نگرانی بھی کی جانی چاہیے۔
ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔