پاکستان کی سرحدی فائرنگ پر عمر عبداللہ کی سخت تنقید، شہریوں کے تحفظ کی ضرورت

پاکستان خود حالات کے لیے ذمہ دار، سرحد پر عام شہریوں کو نشانہ بنانا ناقابل قبول

جموں و کشمیر کے پہلگام میں حالیہ دہشت گردانہ حملے کے بعد جب ہندوستانی فوج نے ’آپریشن سندور‘ کا آغاز کیا تو اس کے نتیجے میں پاکستانی فوج میں بے چینی پھیل گئی۔ اس دوران ہونے والے فائرنگ کے واقعات نے سرحد کے قریب رہنے والی شہری آبادی کے لیے خطرات کو بڑھا دیا ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ایک میٹنگ بلائی، جس میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا بھی شریک ہوئے۔ وزیر داخلہ نے یہ ہدایت کی کہ سرحد کے قریب رہنے والی شہری آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے اور ہنگامی حالت کے لیے بنکرز تیار رکھے جائیں۔

یہ صورتحال اس وقت مزید سنگین ہو گئی جب پاکستانی فوج کی جانب سے فائرنگ کے واقعات میں عام شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات آنے لگیں۔ اس معاملے پر بات کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ ہم نے تمام ڈپٹی کمشنرز سے رابطہ کیا ہے اور جہاں ضرورت ہوگی، شہریوں کو نکالا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات کے لیے پاکستان خود ذمہ دار ہے، کیوں کہ یہ صورتحال پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد پیدا ہوئی ہے، جس میں 26 افراد جان کی بازی ہار گئے۔

سرحدی کشیدگی اور اس کے اثرات

وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے پاکستان کے فائرنگ کے واقعات پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ حالات اس دہشت گردانہ حملے کا نتیجہ ہیں جو پہلگام میں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ “ہم نے پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر کارروائیاں کیں، لیکن جواب میں پاکستان کی جانب سے ہمارے شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔” انہوں نے یقین دلایا کہ ان کے حکومت کے پاس اس معاملے پر کنٹرول نہیں ہے، لیکن وہ اپنی طرف سے ہر ممکن مدد فراہم کریں گے۔

عمر عبداللہ نے مزید کہا، “یہ صورتحال وہاں سے شروع ہوئی، جہاں بے قصور لوگ ہلاک ہوئے۔ اگر پہلگام میں یہ واقعہ نہ ہوتا تو آج ہم اس صورتحال کا سامنا نہیں کر رہے ہوتے۔” ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم امن کی خواہش رکھتے ہیں تو پاکستان کو بھی اپنی بندوقیں خاموش کرنی ہوں گی، ورنہ یہاں سے بھی فائرنگ کا سلسلہ جاری رہے گا۔

حملے کے بعد کی صورتحال

یاد رہے کہ جموں و کشمیر کے پہلگام میں 22 اپریل کو ایک دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حملے کے بعد ہندوستانی فوج نے بدھ (7 مئی) کی صبح فضائی حملہ کیا جس میں پاکستان کے زیر کنٹرول کشمیر میں موجود دہشت گردوں کے نو ٹھکانوں کو تباہ کر دیا گیا۔ یہ کارروائی ایک منظم انداز میں کی گئی تھی اور اس کا مقصد دہشت گردوں کی موجودگی کو ختم کرنا تھا تاکہ مقامی آبادی کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

اس حوالے سے وزیر اعظم مودی کی حکومت نے بھی اس بات کا عزم کیا ہے کہ وہ اس قسم کے حملوں کا سختی سے جواب دیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم کسی بھی صورت حال میں اپنے شہریوں کی حفاظت کریں گے اور کسی بھی قسم کی دہشت گردی کو برداشت نہیں کریں گے۔

آنے والے دنوں کی حکمت عملی

حکومتی عہدیداروں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ سرحدوں پر موجود ہنگامی حالت کے لیے تمام تیاریاں مکمل کی جائیں گی۔ امیت شاہ نے ہدایت دی ہے کہ بنکرز تیار رکھے جائیں اور شہریوں کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام کیا جائے۔ اس کے علاوہ، سرحدی علاقوں میں عوام کو آگاہ کرنے کے لیے بھی خصوصی اقدامات کیے جائیں گے تاکہ وہ ہر ممکن خطرے سے آگاہ رہیں۔

عمر عبداللہ نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ حالات میں شہریوں کا تحفظ اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ ہم جنگ نہیں چاہتے، لیکن اگر ضرورت پیش آئی تو ہم ہر ممکن اقدام کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ حالات ایک بار پھر معمول پر آئیں اور جموں و کشمیر میں امن و سکون قائم ہو۔

اگرچہ صورتحال نازک ہے، لیکن حکومتی عہدیدار عوام کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر ممکن کوششیں کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، بین الاقوامی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہونے والی اس خطرناک صورتحال پر توجہ دے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے۔

عزم و ہمت کے ساتھ، ہم امن کی جانب بڑھیں گے

آخری تجزیے میں، یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کی جانب سے سرحدی فائرنگ کے واقعات نے نہ صرف بین الاقوامی تعلقات کو متاثر کیا بلکہ مقامی آبادی میں بھی خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے۔ حکومت نے اس بات کا عزم کیا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جائے گی۔

اس صورتحال پر مزید تحقیقات اور شفافیت کی ضرورت ہے تاکہ عوام میں اعتماد قائم کیا جا سکے۔ حکام نے یقین دلایا ہے کہ وہ عوام کو ہر ممکن تحفظ فراہم کریں گے اور ان کی مشکلات کا ازالہ کریں گے۔