سپریم کورٹ کی جانب سے ججوں کی جائیداد کی عوامی دسترس کا فیصلہ، شفافیت کی نئی مثال قائم

سپریم کورٹ کا انقلابی اقدام، عوامی شفافیت کی راہ ہموار

ہندوستان کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں ایک تاریخی فیصلہ کیا ہے جس کے تحت ججوں کی جائیداد کی تفصیلات عوامی کر دی گئیں ہیں۔ اس اقدام کا مقصد عدلیہ میں شفافیت کو بڑھانا اور عوام کی فہم کو مزید بہتر بنانا ہے۔ اس فیصلے کے تحت، سپریم کورٹ کے ججوں نے اتوار کو اپنی جائیداد کی تفصیلات پیش کر دیں، جو اب سپریم کورٹ کی سرکاری ویب سائٹ پر موجود ہیں۔

یہ فیصلہ اپنی نوعیت کا پہلا ہے، جس میں ججوں کی جائیداد کی تفصیلات عوامی سطح پر دستیاب کی گئی ہیں۔ اس کی شروعات یکم اپریل 2025 کو ہوئی، جب یہ اعلان کیا گیا کہ تمام ججوں کی جائیداد کو عوام کے لیے کھولا جائے گا۔ جسٹس یشونت ورما کے خلاف لگائے گئے الزامات نے اس فیصلے کی ضرورت کو مزید اجاگر کیا، کیونکہ عوامی سطح پر مالی معاملات کی شفافیت کو برقرار رکھنا انتہائی اہم ہے۔

اس وقت سپریم کورٹ میں 33 جج موجود ہیں، جن میں سے 12 نے اپنی جائیداد کی تفصیلات ابھی تک فراہم نہیں کیں۔ عدالت نے اس سلسلے میں بتایا کہ پہلے سے جمع کی گئی تفصیلات کو ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا جا رہا ہے، اور جن ججز کی تفصیلات اب تک فراہم نہیں کی گئیں، وہ جلد ہی شامل کی جائیں گی۔

چیف جسٹس کے مالی معاملات کی تفصیلات عوامی

اپلوڈ کی گئی معلومات کے مطابق، چیف جسٹس آف انڈیا، سنجیو کھنہ کے بینک کھاتوں میں 55.75 لاکھ روپے موجود ہیں، جب کہ ان کے پی پی ایف کھاتے میں 1.06 کروڑ روپے جمع ہیں۔ ان کے نام پر جنوبی دہلی میں ایک تین بیڈ روم کا فلیٹ بھی موجود ہے، اور دہلی کے کامن ویلتھ گیمز ولیج میں چار بیڈ روم والے فلیٹ کی بھی ملکیت ہے۔ اس کے علاوہ، ان کے پاس گروگرام میں ایک فلیٹ میں 56 فی صد ملکیت بھی ہے، جبکہ ہماچل پردیش کے ڈلہوزی میں ان کی آبائی جائیداد بھی موجود ہے۔

اس اقدام کے تحت سپریم کورٹ نے ججوں کی تقرری کے عمل کو بھی عوامی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے یہ واضح کیا کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کیسے ہوتی ہے، اس کی تمام تفصیلات بھی عوام میں فراہم کی جائیں گی۔ یہ عمل عوامی جانکاری اور شفافیت کی فہم کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگا۔

متعلقہ اداروں کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ عدلیہ کے اندر ہونے والے فیصلوں اور تقرریوں کے عمل کے بارے میں عوام کو آگاہ کریں۔ سپریم کورٹ کا یہ اقدام، ہائی کورٹ کالجیم سسٹم کی وضاحت کرتے ہوئے، بتائے گا کہ ججوں کی تقرری کے سلسلے میں مرکزی اور ریاستی حکومتیں کیا معلومات فراہم کرتی ہیں۔

عدلیہ میں شفافیت کی ضرورت

سپریم کورٹ کی جانب سے یہ اقدام دراصل شفافیت اور جوابدہی کے اصولوں کو فروغ دیتا ہے۔ ماضی میں، ججوں کی جائیدادوں کے حوالے سے سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں، خاص طور پر جب سے جسٹس یشونت ورما پر الزامات عائد ہوئے۔ ان الزامات نے عدلیہ کے اندرونی معاملات میں شفافیت کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا مقصد یہی ہے کہ عوام کو یہ معلوم ہو سکے کہ ان کے ججز مالی طور پر کس طرح کی حیثیت رکھتے ہیں، اور یہ ان کی عدلیہ میں فیصلوں کی شفافیت میں کس طرح معاونت فراہم کر سکتا ہے۔ یہ فیصلہ ان تمام لوگوں کے لیے ایک مثال ہے جو ملکی عدلیہ میں اصلاحات کی خواہش رکھتے ہیں۔

سماجی اداروں اور عوامی حلقوں کی جانب سے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے، اور امید کی جا رہی ہے کہ یہ اقدام دیگر اداروں کے لیے بھی مشعل راہ ثابت ہوگا۔ عوام کو ان کے حقوق کی آگاہی اور ان کی حفاظت کے لیے یہ ایک نہایت ہی اہم اقدام ہے۔

آج کے دور میں جب کہ مالی شفافیت اور جوابدہی کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے، یہ فیصلہ یقیناً ایک مثبت قدم ہے۔ سرکاری ویب سائٹ پر مزید معلومات کے لیے، آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں سپریم کورٹ کی ویب سائٹ۔

اسی طرح کے اقدامات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عدلیہ عوامی ادارے ہونے کے ناطے اپنے عمل میں شفافیت کو اپنانے کے لیے تیار ہے۔ اس نئے اقدام کے بادی النظر میں، عوام کو ججوں کی جائیداد کی تفصیلات کا علم ہونا ایک اہم حق ہے، جو انہیں یہ سمجھنے میں مدد دے گا کہ ان کے جج مالی ذمہ داریوں سے کس حد تک آگاہ ہیں۔

 

ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔