کیا وقف ترمیمی بل 2025 واقعی اوقاف کے نظم و نسق کو بہتر بنانے کے لیے ہے، یا یہ بھی حکومت کی پالیسیوں کا تسلسل ہے جو اقلیتوں کی رائے کے بغیر بنائی جاتی ہیں؟ وقت ہی بتائے گا کہ یہ قانون کتنا فائدہ مند یا نقصان دہ ہے، لیکن ایک بات طے ہے کہ اس نے ہندوستانی سیاست کو نئی سمت میں دھکیل دیا ہے۔
وقف ترمیمی قانون 2025: ایک متنازعہ اقدام
وقف ترمیمی بل پر حالیہ دنوں میں پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث نے ملک بھر کی توجہ حاصل کی۔ 4 اپریل کو یہ بل راجیہ سبھا سے منظور ہوتے ہی ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج شروع ہو گئے۔ عوام، خصوصاً مسلمان برادری، یہ سوال کر رہی ہے کہ ان کے مذہبی اثاثوں کے متعلق قانون سازی میں اُن کی رائے کیوں شامل نہیں کی گئی؟
حکومت کی منشا: فلاح یا سیاسی مفاد؟
موجودہ حکومت کی سابقہ کارکردگی—شہریت ترمیمی قانون (CAA)، این آر سی، زرعی قوانین، اور طلاق ثلاثہ—یہ واضح کرتی ہے کہ کسی بھی قانون سازی میں متاثرہ فریق کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ وقف ترمیمی بل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتا ہے۔
حزب اختلاف کا ردعمل اور عوامی بے چینی
پارلیمنٹ سے لے کر ریاستی اسمبلیوں تک، کانگریس، ڈی ایم کے، ایس پی، آر جے ڈی سمیت متعدد اپوزیشن جماعتوں نے بل کی شدید مخالفت کی۔ تمل ناڈو، کرناٹک اور بہار جیسے ریاستوں میں عوامی مظاہروں نے اس بے چینی کو ظاہر کیا ہے جو مسلمانوں کے اندر پائی جا رہی ہے۔
سیاسی جماعتوں کی پوزیشن اور ووٹوں کی گنتی
بل لوک سبھا میں 288 کے مقابلے 232 ووٹوں سے منظور ہوا، جبکہ راجیہ سبھا میں 128 ووٹ بل کے حق میں اور 95 مخالفت میں پڑے۔ بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں جیسے جے ڈی یو، ٹی ڈی پی، ایل جے پی نے بل کی حمایت کی، جس کے نتیجے میں انہیں مسلم ووٹرز کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، خاص طور پر بہار جیسے حساس ریاست میں جہاں اسمبلی انتخابات قریب ہیں۔
وقف بل: اقلیتوں کے حقوق یا ووٹ بینک کی سیاست؟
یہ سوال اہم ہے کہ اگر حکومت کا مقصد اوقاف کی فلاح و بہبود ہے تو مسلم قیادت سے باضابطہ مشورہ کیوں نہیں کیا گیا؟ فیصلے مسلط کرنے کی روش نے حکومت کی نیت پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔
مستقبل کی سیاست پر اثرات
وقف ترمیمی بل نہ صرف مذہبی اداروں کو متاثر کرے گا بلکہ سیاسی اتحادوں کی بنیادوں کو بھی ہلا سکتا ہے۔ ٹی ڈی پی اور جے ڈی یو جیسی جماعتیں، جو مسلم ووٹ پر انحصار کرتی ہیں، اس بل کی حمایت کے بعد مشکل میں آ سکتی ہیں۔
وقف ترمیمی بل 2025 ایک ایسا موڑ ثابت ہو سکتا ہے جو ہندوستانی سیاست کو ایک نئی تقسیم کی طرف لے جائے گا۔ یہ محض قانون سازی نہیں، بلکہ ایک پیغام ہے کہ ملک کی اقلیتوں کی شمولیت کے بغیر بھی فیصلے
ممکن ہیں۔ وقت بتائے گا کہ اس کا خمیازہ کس کو بھگتنا پڑے گا—عوام کو یا حکومت کو۔
نوٹ: مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔