نقدی برآمدگی کے معاملے نے جج یشونت ورما کی الہ آباد ہائی کورٹ میں تعیناتی پر سوالات کھڑے کر دیے

نئی دہلی: جج یشونت ورما کا معاملہ عوامی بحث و مباحثے کا موضوع
نئی دہلی میں سپریم کورٹ کے جج یشونت ورما کی سرکاری رہائش گاہ سے بڑی مقدار میں نقدی برآمد ہونے کے بعد ان کی الہ آباد ہائی کورٹ میں تعیناتی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس معاملے نے نہ صرف قانونی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے بلکہ عوامی سطح پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ بار ایسوسی ایشن نے جج ورما کی اس ممکنہ تعیناتی کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔

کیا ہے معاملہ؟
یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب دہلی کے علاقے میں واقع یشونت ورما کی سرکاری رہائش گاہ پر آتشزدگی کے دوران بڑی مقدار میں نقدی برآمد ہوئی۔ اس واقعے کی تفصیلات جاننے کے بعد سپریم کورٹ کالجیم نے جج ورما کو الہ آباد ہائی کورٹ منتقل کرنے کی تجویز دی۔

کون؟ کیا؟ کہاں؟ کب؟ کیوں؟ کیسے؟
یہ معاملہ بنیادی طور پر سپریم کورٹ کے جج یشونت ورما سے متعلق ہے جو حال ہی میں اپنی سرکاری رہائش گاہ سے ملنے والی نقدی کے باعث ایک تنازع میں آ گئے ہیں۔ ان کی رہائش گاہ میں آتشزدگی کے دوران بڑی مقدار میں نقدی ملی، جس کے بعد سپریم کورٹ نے انہیں الہ آباد ہائی کورٹ میں منتقل کرنے کی تجویز دی۔

یہ واقعہ ماضی میں بھی جج ورما کے پیشہ ورانہ کیریئر کا حصہ رہا ہے اور وہ پہلے بھی الہ آباد ہائی کورٹ میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس فیصلے کی وجہ سے بار ایسوسی ایشن نے احتجاج کا آغاز کیا ہے، جسے انہوں نے غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔

بار ایسوسی ایشن کے صدر انیل تیواری نے واضح کیا ہے کہ وہ اس معاملے میں جج ورما کے خلاف سی بی آئی اور ای ڈی کی تفتیش کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

الہ آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی مؤقف
الہ آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ جج ورما جیسے کرپشن کے الزامات میں ملوث شخص کو ان کے ہائی کورٹ میں بھیجا جائے۔ ان کے مطابق، الہ آباد ہائی کورٹ کسی ’کچرا گھر‘ کی حیثیت اختیار نہیں کر سکتا، جہاں ایسے افراد کو منتقل کیا جائے جن پر الزامات ہیں۔

بار کے صدر انیل تیواری کا مزید کہنا تھا کہ "ایسا لگتا ہے کہ سپریم کورٹ الہ آباد ہائی کورٹ کو ڈمپنگ گراؤنڈ بنانا چاہتی ہے لیکن ہم ایسا ہرگز ہونے نہیں دیں گے۔”

جج ورما کی وضاحت
جج یشونت ورما نے اس معاملے میں اپنی وضاحت پیش کی ہے اور کہا ہے کہ وہ آتشزدگی کے وقت دہلی میں موجود نہیں تھے۔ ان کے مطابق، جب ان کی بیٹی اور پرائیویٹ سیکریٹری نے فائر بریگیڈ کو اطلاع دی تو سب کو حفاظتی وجوہات کی بنا پر دور رکھا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ "اس دوران کسی نے بھی نقدی نہیں دیکھی، اور یہ سب بے بنیاد الزامات ہیں۔”

تحقیقات کا سلسلہ
دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی کے اپادھیائے نے اس معاملے کے حوالے سے جج ورما کے گزشتہ 6 مہینوں کے کال ریکارڈ اور ان کے گھر پر موجود سیکورٹی گارڈز کا ڈیٹا طلب کیا ہے۔ اس کے علاوہ، بار ایسوسی ایشن نے جج ورما کے حراست میں لینے کا بھی مطالبہ کیا ہے تاکہ حقائق کی مکمل جانچ کی جا سکے۔

کیا یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے؟
یہ معاملہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق، اگر جج ورما کے خلاف الزامات ثابت ہوتے ہیں تو اس کے اثرات صرف ان کی پیشہ ورانہ زندگی تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ یہ عدالتوں کے نظام پر بھی سوالات اٹھا سکتے ہیں۔

ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔