ہندوستان نے پاکستان کے دہشت گردی کے الزامات کو مسترد کر دیا

پاکستان کے الزامات کا جائزہ: ہندوستان کا جواب

نئی دہلی میں واقع ہندوستانی وزارت خارجہ نے پاکستان کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا ہے، جن میں کہا گیا ہے کہ جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ کے پیچھے ہندوستان کا ہاتھ تھا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے اس بارے میں ایک تفصیلی بیان جاری کیا جس میں انہوں نے پاکستان کو اپنی داخلی ناکامیوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے دوسروں پر الزام لگانے کے بجائے خود احتسابی کرنی چاہیے۔ یہ صورتحال اس وقت سنگین ہوئی جب بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کر لیا تھا، جس نے پورے خطے میں تناؤ کو بڑھا دیا۔

یہ الزامات اس وقت سامنے آئے جب منگل کو بلوچ معارضین نے پورے 30 گھنٹوں تک اس ٹرین کے ساتھ ایک شدید مقابلہ کیا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق پاکستانی سکیورٹی فورسز نے تقریباً 300 مسافروں کو بچایا، جبکہ 33 جنگجو مارے گئے۔ حالانکہ اس صورتحال میں 21 یرغمالیوں اور 4 سکیورٹی اہلکاروں کی بھی ہلاکت کی تصدیق کی گئی جو اس واقعے کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔

پاکستانی ترجمان کا بیان اور ہندوستان کا ردعمل

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے دعویٰ کیا کہ اس واقعے میں ایک ‘غیر ملکی طاقت’ کا ہاتھ ہو سکتا ہے، البتہ انہوں نے براہ راست ہندوستان کا ذکر نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حملے کے دوران شدت پسند اپنے ‘سرپرستوں’ کے ساتھ افغانستان میں رابطہ میں تھے۔ اس کے جواب میں، ہندوستانی ترجمان نے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ دہشت گردی کا اصل مرکز کہاں ہے اور پاکستان کو اپنی مشکلات اور ناکامیوں کا الزام دوسروں پر ڈالنے کی بجائے خود پر غور کرنا چاہیے۔

یہ الزامات ایک ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب پاکستانی حکومت نے ماضی میں بھی بی ایل اے کی کارروائیوں کے لیے ہندوستان کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان نے اس پالیسی میں کوئی تبدیلی کی ہے، تو انہوں نے کہا کہ ان کے الزامات آج بھی برقرار ہیں۔

امن و امان کی صورتحال

اس وقت پاکستان میں شدت پسندوں کی کارروائیاں اور ان کی سرپرستی کا سوال بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ پاکستانی فوج کی رپورٹ کے مطابق، اس ہائی جیکنگ میں 300 مسافروں کی جان بچائی گئی، جو کہ اچھی خبر تھی، تاہم اس دوران ہونے والی ہلاکتیں اس واقعے کی دہشت کی شدت کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس واقعے نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور پاکستان میں سیکیورٹی صورتحال پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔

ہندوستان کی طرف سے دیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کو اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ اس کے اندرونی مسائل کو حل کرنے کے لیے باہم بات چیت کی ضرورت ہے نہ کہ دوسروں پر الزامات لگانے کی۔ اس کے علاوہ، ماضی کی طرح، بھارت نے اس واقعے کو بھی پاکستان کی اندرونی ناکامیوں کے طور پر دیکھتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔

پاکستان کی اندرونی سیاست اور افواج

پاکستان کی سیاسی صورتحال کافی نازک ہے، جہاں حکومت اور فوج ایک دوسرے کے ساتھ شدید دباؤ میں ہیں۔ اس کے علاوہ، ان کے اندرونی مسائل جیسے کہ معاشی بحران، دہشت گردی، اور علاقائی عدم استحکام نے ملک کی سیکیورٹی کے نظام کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔

پاکستانی حکومت کو عوامی دباؤ کا سامنا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب یہ ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا وہ اپنی سیکیورٹی پالیسیوں میں تبدیلی لانے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ اس حوالے سے وزیر اطلاعات فواد چودری نے ایک بیان میں کہا تھا کہ حکومت اپنے قومی مفاد کا تحفظ کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔

علاقائی اثرات

اس واقعے کے بعد، علاقائی صورتحال بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی بڑھے گی تو اس کا اثر دیگر ہمسایہ ممالک پر بھی پڑے گا۔ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے کام کرنا ہوگا تاکہ امن کی راہ ہموار ہو سکے۔

ماضی میں، دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا سلسلہ جاری رہا ہے، لیکن حالیہ واقعات نے اس بات چیت کو نئی راہوں کی طرف لے جایا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی اس واقعے پر سخت ردعمل آیا ہے، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے تمام ممالک کے لیے خطرات میں اضافہ ہوتا ہے۔

ڈس کلیمر
ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس مضمون اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فراہم کردہ معلومات مستند، تصدیق شدہ اور معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں۔ اگر آپ کے پاس کوئی رائے یا شکایت ہو تو براہ کرم ہم سے info@hamslive.com پر رابطہ کریں۔