مہاکمبھ میں بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے ضروری اشیاء کی کمی، خوراک کے بحران کا خدشہ

پریاگ راج، جہاں ہر سال مہاکمبھ کا میلہ بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے، اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے۔ عقیدتمندوں کی بڑی تعداد ’سنگم اسنان‘ کے لیے پہنچ رہی ہے، جس کی وجہ سے ٹریفک کی صورت حال بدترین ہو چکی ہے۔

کیا، کب، کہاں، کیوں، کون، اور کیسے؟

مہاکمبھ کے دوران ملک بھر سے حاضرین کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ یہ صورتحال 5 دنوں سے جاری ہے، جس کے نتیجے میں ٹریفک جام کی صورت حال نے ہر چیز کو متاثر کیا ہے۔ گاڑیوں کو ہائی وے پر 2 گھنٹے کی مسافت طے کرنے میں 10 گھنٹے لگ رہے ہیں۔ یہ ضروری اشیاء کی پہنچ میں بھی مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ حکومت اور مقامی انتظامیہ اس بحران کو حل کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے، اور اگر یہ صورت حال جاری رہی تو خوراک کے بحران میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

اس سانحے کا اثر عام لوگوں پر بھی پڑ رہا ہے، جو روز مرہ کی اشیاء کی کمی کا شکار ہیں۔ ٹریفک نظام مکمل درہم برہم ہوگیا ہے اور شہر کی تمام سڑکیں جام ہیں۔ پولیس نے ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے بیریکیڈز لگائے ہوئے ہیں، لیکن صورت حال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔

غلہ منڈی مُٹی گنج میں مال بردار گاڑیاں نہ آنے کی وجہ سے چینی، آٹا، اور بریڈ جیسی اشیاء کی کمی ہو گئی ہے۔ کئی معاملات میں باامراض رسد کی کمی کی وجہ سے بلیک مارکیٹنگ کی خبریں بھی منظر عام پر آئیں ہیں۔

تجارتی حالات اور خوراک کی قلت

مال بردار گاڑیوں کے شہر میں نہ آنے کے باعث، کاروباریوں کے گوداموں میں موجود اشیاء کی مقدار کم ہو گئی ہے۔ یہ صورتحال اس وقت مزید خراب ہو گئی جب دکانداروں کو ضروری اشیاء کی سپلائی کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ ہول سیل تاجروں کا کہنا ہے کہ اگر صورتحال بہتر نہ ہوئی تو ہم ایک بڑے خوراک کے بحران کا سامنا کر سکتے ہیں۔

نیز، ریٹیل کاروباری دیپک کیسروانی نے بتایا کہ انہیں ہولسیل مارکیٹ سے چینی نہ ملنے کی وجہ سے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے 50 کلوگرام چینی کی طلب کی تو انہیں صرف 15 کلوگرام فراہم کی گئی۔

اسی طرح، دوسری جانب، بیکری کے کاروباری رشید صغیر نے بھی دقت کا ذکر کیا کہ میدا کی کمی کی وجہ سے وہ بریڈ نہیں بنا پا رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کوکھ راج کے قریب ایک ٹرک میدا لے کر کھڑا ہے، لیکن وہ شہر میں داخل نہیں ہو پا رہا۔

بلیک مارکیٹنگ اور عوامی پریشانی

بلیک مارکیٹنگ کی رپورٹیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ کئی کاروباروں نے ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے، جس کے باعث لوگوں کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ صورتحال اس وقت مزید مشکل ہو گئی جب دودھ کی ترسیل میں بھی رکاوٹیں آ گئیں۔ دودھ فروخت کرنے والے راکیش دوبے نے بتایا کہ ’ٹریفک جام کی وجہ سے دودھ کی گاڑیاں شہر میں داخل نہیں ہو پا رہیں۔’

یہ بات قابل غور ہے کہ اگر صورتحال اسی طرح جاری رہی تو عوام کی روزمرہ کی زندگی میں مزید مشکلات پیش آئیں گی اور بنیادی ضروریات کی فراہمی میں رکاوٹیں بڑھ سکتی ہیں۔

مقامی حکومت کی خاموشی

حیرت کی بات ہے کہ اس خوفناک صورتحال کے باوجود مقامی حکومت نے ابھی تک کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا ہے۔ ان کی خاموشی اور بے بسی اس بات کی علامت ہے کہ وہ عوامی مشکلات کی طرف متوجہ نہیں ہیں۔ عظیم الشان مہاکمبھ کے موقع پر اس طرح کی صورتحال نے عوام کی زندگی کو مایوس کن بنا دیا ہے۔

یہ بحران صرف موجودہ حالات تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ اگر فوری حل نہ نکالا گیا تو مستقبل میں بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ عوامی صحت اور سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو چاہئے کہ وہ جلد ہی اس مسئلے کے حل کے لیے موثر اقدامات کرے۔

As per the report by Qaumiawaz, حکومتی مشینری کی حرکت میں سستی اور عوام کی بے چینی کے اسباب مختلف ہیں، لیکن سب سے بڑا مسئلہ لوگوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کا ہے۔