چنڈی گڑھ کی عدالت نے حراستی موت کے معاملے میں 8 پولیس اہلکاروں کو سنائی سزا

حراست میں موت کا معاملہ: اہم ملزمان کو سزا سنائی گئی

چنڈی گڑھ: ہماچل پردیش میں ہونے والے ایک عصمت دری اور قتل کے دردناک معاملے میں، آج چنڈی گڑھ کی سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے آئی جی ظہور زیدی سمیت 8 پولیس اہلکاروں کو قصوروار قرار دے دیا۔ یہ فیصلہ جس میں کئی اعلیٰ پولیس افسران شامل ہیں، اس بات کا عکاس ہے کہ پولیس کے متنازعہ کردار کو کس طرح عدالت نے عوام کے سامنے لانے کا عزم کیا ہے۔

یہ معاملہ اس وقت کی توجہ کا مرکز بنا جب 4 جولائی 2017 کو شملہ کے ایک اسکول کی طالبہ، جس کا نام گڑیا (تبدیل شدہ) ہے، لاپتہ ہو گئی۔ دو دن بعد اس کی لاش جنگل سے ملی، جس کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ اس کے ساتھ عصمت دری کی گئی اور پھر قتل کر دیا گیا۔ اس واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔

کس نے کیا؟ کہاں ہوا؟ کب ہوا؟ کیوں ہوا؟ اور کیسے ہوا؟

یہ معاملہ 4 جولائی 2017 کو شروع ہوا جب گڑیا نامی طالبہ اچانک لاپتہ ہو گئی۔ اس کے والدین نے اپنی بیٹی کی تلاش شروع کی، اور دو دن بعد اس کی لاش قریبی جنگل سے ملی۔ بنیادی تحقیقات کے دوران یہ واضح ہوا کہ اس کے ساتھ نہ صرف عصمت دری کی گئی بلکہ بعد میں اسے قتل بھی کر دیا گیا۔

پولیس نے اس معاملے میں مقامی نوجوانوں کے ساتھ ساتھ 5 مزدوروں کو بھی حراست میں لیا، جس میں ایک نیپالی نوجوان، سورج بھی شامل تھا۔ تاہم، یوں لگتا ہے کہ ان سب کی حراست کے دوران، سورج کو کسی بھی طرح کی بے قاعدگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ سورج کی حراست کے دوران موت واقع ہوئی، جس کے جسم پر 20 سے زیادہ چوٹ کے نشان پائے گئے۔

چنڈی گڑھ کی سی بی آئی عدالت نے اس واقعے کی مکمل جانچ کی، جہاں یہ بات سامنے آئی کہ پولیس کی جانب سے ٹارچر کے نتیجے میں سورج کی موت ہوئی۔ عدالت نے واضح کیا کہ یہ معاملہ ایک انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اور پولیس کے افسران اس کے ذمہ دار ہیں۔

گڑیا کے معاملے میں سی بی آئی کی تحقیقات

گڑیا کے معاملے میں سی بی آئی کی تحقیقاتی ٹیم کو تشکیل دیا گیا، جس نے واقعے کی تفصیل سے جانچ کی۔ پہلے یہ مقدمہ شملہ میں چل رہا تھا، لیکن بعد میں سپریم کورٹ نے اسے چنڈی گڑھ منتقل کر دیا۔

عدالت نے گڑیا کی عصمت دری اور قتل میں شامل ملزم انل کمار کو 18 جون 2021 کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ یہ معاملہ ہماچل پردیش کے قانون نظام کی کمزوریوں اور پولیس کی بدعنوانیوں کو اجاگر کرتا ہے۔

آئی جی ظہور زیدی کی ذمہ داری

قصوروار قرار دیے گئے آئی جی ظہور زیدی 1994 بیچ کے آئی پی ایس افسر ہیں۔ انہیں 2017 میں گڑیا کے عصمت دری اور قتل کی تحقیقات کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔ ظہور زیدی نے اس معاملے کی جانچ کے دوران کافی وقت تک شملہ کے کنڈا جیل میں بند رہے۔

چنڈی گڑھ کی خصوصی عدالت نے آج ان 8 پولیس اہلکاروں کو سزا سناتے ہوئے یہ واضح کیا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، چاہے وہ پولیس کے اعلیٰ اہلکار ہی کیوں نہ ہوں۔

عدالت کا فیصلہ: ایک تاریخی لمحہ

آج کا فیصلہ ایک تاریخی لمحہ ہے، جس نے عام لوگوں کے لئے یہ پیغام پہنچایا ہے کہ قانون کی عملداری کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ پولیس کو عوام کی حفاظت کرنا ہے، نہ کہ انہیں نقصان پہنچانا۔

اس معاملے میں آئی جی کے علاوہ جو دیگر اہلکار قصوروار قرار دیے گئے ہیں، ان میں ٹھیوگ کے اس وقت کے ڈی ایس پی منوج جوشی، کوٹ کھائی کے سابق ایس ایچ او راجندر سنگھ، اے ایس آئی دیپ چند، ہیڈ کانسٹیبل سورت سنگھ، موہن لال، رفیق علی، اور کانسٹیبل رنجیت سنگھ شامل ہیں۔

مستقبل کا لائحہ عمل

یہ فیصلہ آئندہ کے لئے ایک سبق ہے کہ جس میں بہتر اور مؤثر قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔ لوگوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہی حاصل کرنی چاہیے، تاکہ وہ قانون کے مطابق اپنے حقوق کا دفاع کر سکیں۔

یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ عدالت کے اس فیصلے کو دیکھتے ہوئے، حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ پولیس کے نظام کو مضبوط بنائے اور افسران کی تربیت کو بہتر بنائے۔

عدالت نے شملہ کے اس وقت کے ایس پی ڈی ڈبلیو نیگی کو شواہد کی کمی کی وجہ سے بری کر دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک ملزم کے خلاف شواہد کی بنیاد پر فیصلہ سنایا گیا جو کہ انصاف کی بنیاد ہے۔

یہ فیصلہ ایک دردناک واقعے کا ایک لمحہ فکریہ بھی ہے، اور یہ واضح کرتا ہے کہ ہمیں معاشرتی نظام میں بہتری کی ضرورت ہے، جہاں ہر شہری کو انصاف مل سکے۔