### پارلیمنٹ میں جے پی سی کی میٹنگ، حکومت کی ترامیم منظور، اپوزیشن کی شدید تنقید
ہندوستان کی پارلیمنٹ میں ہونے والی جوائنٹ کمیٹی (جے پی سی) کی ایک اہم میٹنگ میں ‘وقف (ترمیمی) بل 2024’ پر گفتگو کی گئی، جس میں حکومت کی طرف سے پیش کردہ تمام ترامیم کو منظور کر لیا گیا۔ اس میٹنگ میں بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے کے اراکین نے ترمیمات کی حمایت کی جبکہ اپوزیشن اراکین نے اپنی تجاویز کو خارج کیے جانے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔
جے پی سی کے چیئرمین جگدمبیکا پال نے میٹنگ کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا کہ منظور کردہ ترامیم قانون کو مزید بہتر اور مفید بنائیں گی۔ تاہم، اپوزیشن نے اس میٹنگ کی کارروائی کو جمہوری عمل کے خلاف قرار دیتے ہوئے جگدمبیکا پال پر تنقید کی۔ ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ کلیان بنرجی نے اس عمل کو مضحکہ خیز قرار دیا اور کہا کہ ان کی تجویز کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔
جگدمبیکا پال نے اپوزیشن کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ پورا عمل جمہوری تھا اور اکثریت کی رائے کو تسلیم کیا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کمیٹی کی جانب سے منظور کردہ اہم ترامیم میں سے ایک اہم تبدیلی یہ ہے کہ موجودہ وقف جائیدادوں پر ’صارف کے ذریعہ وقف‘ کی بنیاد پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔
### ترمیمی بل کی اہم تبدیلیاں اور اپوزیشن کی رائے
ترمیمی بل میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں، ان میں ایک اہم نکتہ موجودہ وقف جائیدادوں کی قانونی حیثیت کو بحال کرنا ہے۔ یہ بل ایک نئے طریقہ کار کے تحت جائیدادوں کی مذہبی استعمال کی بنیاد پر وقف کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب مذہبی مقاصد کے لئے جائیدادوں کا طویل مدتی استعمال ہو سکتا ہے، جبکہ اس سے پہلے ’صارف کے ذریعہ وقف‘ کے قواعد موجود تھے۔
کمیٹی کے چیئرمین جگدمبیکا پال کا کہنا ہے کہ بل کے 14 التزامات میں پیش کردہ ترامیم کی منظوری ہو چکی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن نے کمیٹی میں 44 التزامات میں سینکڑوں ترامیم پیش کی تھیں، جن میں سے تمام کو ووٹنگ کے ذریعے خارج کر دیا گیا۔
دوسری جانب، اپوزیشن اراکین کی طرف سے مزید کہا گیا کہ اس عمل سے جمہوری اقدار کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ کلیان بنرجی نے کہا کہ "ہماری تجاویز کو نظر انداز کرنا ایک خطرناک رجحان ہے۔ اگر اس طرح کے اقدامات جاری رہے تو یہ جمہوریت کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔”
### بل کی منظوری کے اثرات
یہ بل اگرچہ حکومت کی طرف سے منظور کیا گیا ہے، لیکن اس کے اثرات اب بھی متنازعہ ہیں۔ حکومت کا موقف ہے کہ یہ ترامیم مذہبی وقفیات کے انتظام کو مزید واضح اور منظم کریں گی، جبکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ مذہبی آزادیوں کو محدود کرتی ہیں۔
کمیٹی میں ہونے والی اس میٹنگ کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ گئی ہے کیونکہ اس میں مختلف مذہبی اور سماجی گروہوں کے مفادات کا تحفظ بھی تھا۔ حکومت کا مقصد یہ ہے کہ وقف کی جائیدادوں کا درست اور موثر استعمال ممکن بن سکے، تاکہ وہ مذہبی مقاصد کے لئے فائدہ مند رہ سکیں۔
جیسا کہ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے، ‘وقف (ترمیمی) بل 2024’ کے بارے میں اپوزیشن کی طرف سے مختلف مذہبی رہنماوں کا بھی ردعمل سامنے آیا ہے۔ انہوں نے اس بل کی منظوری کو مذہبی حقوق کے خلاف قرار دیا ہے۔
### جگدمبیکا پال کی وضاحت
جے پی سی کے چیئرمین جگدمبیکا پال نے وضاحت کی ہے کہ بل کی منظوری میں تمام کمیٹی کے اراکین کی رائے کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، "ہم نے اکثریت کی رائے کو تسلیم کیا ہے اور کسی بھی نوعیت کی تعصب کا مظاہرہ نہیں کیا۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ "یہ بل حکومت کی کوششوں کا حصہ ہے کہ وہ مذہبی اداروں کے وقار اور ان کی جائیدادوں کی حفاظت کرے۔” جگدمبیکا پال نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن کی تنازعہ کا مقصد صرف سیاسی مقاصد ہیں، اور وہ اس طرح کے اقدامات کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
### اپوزیشن کا احتجاج اور مستقبل کے اقدامات
اپوزیشن نے اس بل کی منظوری کے بعد شدید احتجاج جاری رکھا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں نے اس کے خلاف متحرک ہونے کا اعلان کیا ہے۔ ترنمول کانگریس کے رہنماوں نے اس بل کے خلاف پارلیمنٹ کے باہر مظاہرہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
مستقبل میں بھی اپوزیشن کے اراکین اس مسئلے کو اٹھاتے رہیں گے، اور انہیں امید ہے کہ عوامی حمایت حاصل کرکے اس بل کی تبدیلی کے لئے موثر اقدامات کئے جا سکیں گے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ آنے والے انتخابات میں بھی ایک اہم مسئلہ بن سکتا ہے۔
### عوامی تاثرات
عوامی حلقوں میں بھی اس بل کے بارے میں مختلف خیالات پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ حکومت کے اقدامات کی تعریف کر رہے ہیں جبکہ دیگر اس کے خلاف شدید ناپسندیدگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس بارے میں ‘قومی آواز’ نے عوامی رائے کے لئے ایک سروے بھی جاری کیا ہے، جس میں شہریوں کو اپنی رائے پیش کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔
آپ اس بل کی مکمل تفصیلات اور عوامی رائے کے جائزے کے بارے میں مزید معلومات کے لئے[یہاں کلک کریں](#)۔
اس بل کی منظوری نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک نئی محاذ آرائی پیدا کر دی ہے جو آنے والے دنوں میں مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔ عوامی رائے کا اثر بھی اس بل کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کرے گا۔
یہ فیصلہ حکومت کی طرف سے جوش و خروش کا مظہر ہے، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ عوامی حمایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس بل کی مختلف جہتوں پر عمل درآمد کیسے کیا جاتا ہے۔