پاکستان کو دو بار، فرانس کو سب سے زیادہ مرتبہ مہمان خصوصی بننے کا اعزاز
ہر سال 26 جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریب میں ایک مہمان خصوصی کو مدعو کیا جاتا ہے، جو اس تقریب کی شاندار روایات کا حصہ ہے۔ یہ روایت 1950 سے جاری ہے اور اس میں دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہان کو مدعو کیا جاتا ہے۔ بھارت کی خارجہ پالیسی کی عکاسی کرنے کے لحاظ سے مہمان خصوصی کا انتخاب بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس تقریب میں بھارت کے دو طرفہ تعلقات اور بین الاقوامی تعاون کی سمت کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ مہمان خصوصی کی شرکت کا مقصد دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید مضبوطی لانا ہوتا ہے۔
کون؟ کیا؟ کہاں؟ کب؟ کیوں؟ کیسے؟
ہندوستان کے یوم جمہوریہ کے مہمان خصوصی کے طور پر اب تک کئی ممالک کے رہنما مدعو کیے جا چکے ہیں، جن میں پاکستان، امریکہ، روس، اور فرانس شامل ہیں۔ پاکستان کو 1955 اور 1965 میں اس تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا۔ 1955 میں پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے اس تقریب میں شرکت کی تھی۔ پھر 1965 میں وزیر زراعت رانا عبدالحامد کو مہمان خصوصی بنایا گیا۔
بھارت اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ ہی پیچیدہ رہے ہیں، اور کشیدگی کی صورت حال کے باوجود دونوں ممالک کے عہدے داروں کو یوم جمہوریہ کی تقریب میں مدعو کیا گیا۔ خاص طور پر 1965 میں جب پاکستان کو مہمان خصوصی بنایا گیا تو اس کے محض چھ ماہ بعد دونوں ممالک کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔
دوسری طرف، فرانس کے رہنما سب سے زیادہ بار اس تقریب میں مہمان خصوصی بن چکے ہیں، جن میں 1976، 1980، 1998، 2008، 2016 اور 2024 شامل ہیں۔ یہ ہمیشہ دونوں ممالک کے درمیان گہرے دو طرفہ تعلقات کے عکاس ہیں، خاص طور پر دفاع، جوہری توانائی، اور تکنیکی تعاون جیسے شعبوں میں۔
فرانس اور بھارت کے تعلقات
فرانس اور بھارت کے تعلقات ایک اسٹریٹجک شراکت داری کی مثال دیے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک نے کئی اہم معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، جس میں دفاعی سودے، میزائل ٹیکنالوجی، اور خلائی پروگرام شامل ہیں۔ بھارت کے یوم جمہوریہ میں فرانس کے صدر کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی اہمیت بڑھ رہی ہے۔
ان تعلقات کی مزید وضاحت اس بات سے ہوتی ہے کہ فرانس کو کثرت سے مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیے جانے کی ایک وجہ بھارت کا فرانس کے ساتھ دفاعی تعاون ہے۔ دونوں ممالک کی مشترکہ جہاز رانی کی مشقیں اور انسداد دہشت گردی کے متعلق تعاون ان کے تعلقات کو مزید مضبوط بناتے ہیں۔ اس کے برعکس، امریکہ نے صرف ایک بار یوم جمہوریہ کی تقریب میں شرکت کی ہے، جب صدر براک اوباما نے 2015 میں اس تقریب میں شرکت کی تھی، جو کہ ایک خاص موقع تھا۔
جبکہ یوم جمہوریہ کی تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے دعوت دینا ایک اہم علامت ہوتی ہے، یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے مواقع پر دونوں ممالک کے درمیان جاری معاشی اور تجارتی تعلقات میں بھی بہتری آتی ہے۔
تاریخی تناظر میں مہمان خصوصی کی حیثیت
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یوم جمہوریہ کی تقریب میں مہمان خصوصی کا انتخاب کسی ملک کی خارجہ پالیسی کے اہم اشارے کا عکاس ہوتا ہے۔ جب پاکستان کو مدعو کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ بھارت اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی خواہاں ہے۔ اسی طرح، اگر فرانس کو بار بار اس تقریب میں مدعو کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان دوستی کی گہرائی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔
یہاں پر یہ بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی میں اس طرح کے اقدامات کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے دعوت دینا نہ صرف دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک مثبت پیغام بھیجتا ہے۔
مستقبل کی توقعات
آنے والے سالوں میں یوم جمہوریہ کی تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر کن ممالک کے رہنما مدعو کیے جائیں گے، یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ مستقبل میں پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات میں بہتری کے لیے دونوں حکومتوں کی جانب سے کیا اقدامات کیے جائیں گے، یہ بھی ایک اہم پہلو ہے۔ اگرچہ بھارتی حکومت نے مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا پاکستان کو پھر سے مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا جائے گا یا نہیں۔
اسی طرح، فرانس کے صدر کی موجودگی بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید گہرائی آ رہی ہے۔ فرانسیسی صدر کی شرکت کا امکان ہمیشہ سے ہی موجود رہا ہے، اور یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ فرانس بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات میں مستقل مزاحمت رکھتا ہے۔
یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک بھی اس تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو ہونے کی خواہاں ہیں، اور یہ دیکھنا ہوگا کہ کس ملک کو اس اہم حیثیت سے نوازا جاتا ہے۔