حلال سرٹیفکیشن پر سپریم کورٹ میں دلچسپ بحث: غیر گوشت مصنوعات کی حلال مہر پر سالیسٹر جنرل کا نکتہ نظر

حلال سرٹیفیکیشن کا معاملہ: سپریم کورٹ میں اہم سماعت

سپریم کورٹ میں حلال سرٹیفائیڈ مصنوعات کے معاملے پر دلچسپ بحث جاری ہے، خاص طور پر اتر پردیش حکومت کی جانب سے ان مصنوعات پر پابندی کے خلاف دائر درخواستوں کے حوالے سے۔ سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تیشار مہتا نے یہ کہہ کر بحث کا آغاز کیا کہ حلال سرٹیفائیڈ مصنوعات کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالت کو یہ دیکھنا ہوگا کہ ملک کے باقی لوگ صرف اس وجہ سے مہنگی حلال مصنوعات کیوں خریدیں کہ چند لوگوں نے ان کی مانگ کی ہے۔

یہ معاملہ ان اہم سوالات کے گرد گھومتا ہے جو اس وقت حلال سرٹیفیکیشن کے عمل پر بحث چھیڑ رہے ہیں: کون حلال سرٹیفیکیشن کی مخالفت کر رہا ہے؟ کیا یہ مصنوعات واقعی مہنگی ہیں؟ کہاں اس حوالے سے سماعت ہو رہی ہے؟ کب یہ معاملہ شروع ہوا؟ کیوں کچھ لوگ حلال سرٹیفیکیشن کے طریقے پر سوال اٹھا رہے ہیں؟ کیسے اس مسئلے پر سرکاری اقدامات کے تحت قانونی کارروائیاں کی جا رہی ہیں؟

عدالت کے سامنے یہ کیس جسٹس بی آر گوائی اور اے جی مسیح پر مشتمل بنچ نے سنا، جو اس معاملے کی سماعت 24 مارچ 2024 کے ہفتے میں دوبارہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس دوران عدالت نے درخواست گزاروں کو زبردستی کارروائی سے محفوظ رکھتے ہوئے جواب دہندہ یونین کو پیش کرنے کی ہدایت دی۔

سالیسٹر جنرل کی حیرانی: حلال سرٹیفکیشن کی حدود

سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تیشار مہتا نے حلال سرٹیفکیشن کے حامل مصنوعات کی فہرست دیکھ کر اپنی حیرانی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا، "حلال سرٹیفائیڈ مصنوعات میں صرف گوشت ہی نہیں بلکہ سیمنٹ اور لوہے کا سریا بھی شامل ہورہا ہے۔” ان کا اشارہ ان مصنوعات کی جانب تھا جن کا تعلق کھانے پینے سے نہیں بلکہ تعمیراتی سامان سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے سرٹیفکیٹ کی حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اور انہوں نے سوال اٹھایا کہ آیا ایسے غیر کھانے کی اشیاء کو بھی حلال سرٹیفائیڈ کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟

سالیسٹر جنرل نے یہ بھی بتایا کہ حلال سرٹیفکیشن ادارے اس سرٹیفیکیشن کے ذریعے ‘چند لاکھ کروڑ’ کما رہے ہیں اور یہ حیران کن ہے کہ آٹا اور بیسن جیسی غیر گوشت کی مصنوعات کو بھی حلال سرٹیفائیڈ کیا جا رہا ہے۔

درخواست گزاروں کی جانب سے جوابی دلائل

اس پر سینئر وکیل ایم آر شمشاد نے درخواست گزاروں کی طرف سے مؤقف پیش کیا کہ مرکزی حکومت کی پالیسی میں حلال کی وضاحت کی گئی ہے کہ یہ صرف غیر گوشت مصنوعات تک محدود نہیں بلکہ ایک طرز زندگی کی علامت ہے۔ انہوں نے مثال کے طور پر کہا کہ کچھ مصنوعات میں محفوظ رکھنے کے لیے شراب کے مواد کا استعمال ہو سکتا ہے، اور یہ سمجھنا ضروری ہے کہ حلال سرٹیفیکیشن کی گہرائی کیا ہے۔

سالیسٹر جنرل نے اصرار کیا کہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پورے ملک میں غیر مسلم صارفین مہنگی حلال سرٹیفائیڈ مصنوعات کیوں خریدیں۔ جس پر درخواست گزاروں کے وکلا نے جواب دیا کہ یہ ایک ذاتی پسند کا معاملہ ہے اور لوگوں کا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کی مصنوعات خریدیں۔

حکومت کی پابندی: قانونی پہلو

یاد رہے کہ اتر پردیش حکومت نے 18 نومبر 2023 کو حلال سرٹیفیکیشن والی مصنوعات کی تیاری، فروخت، ذخیرہ اندوزی اور تقسیم پر پابندی لگا دی تھی۔ اس پابندی کا پس منظر لکھنؤ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے یوتھ ونگ کی جانب سے شکایت پر ہے، جس میں حلال سرٹیفیکیشن اداروں پر ‘جعلی’ سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

یہ فیصلے اتر پردیش میں نافذ ہوئے ہیں اور اس کا اطلاق برآمدی مصنوعات پر نہیں ہوتا۔ اس پابندی کے خلاف حلال انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ اور جمعیۃ علماء مہاراشٹر نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے، جس میں انہوں نے اس پابندی کو غیر آئینی قرار دینے کے لیے قانونی مداخلت کی درخواست کی ہے۔

کیا یہ پابندی آئینی ہے؟

یہ مسئلہ بہت اہم ہے کیونکہ اس سے عوامی دلچسپی اور اقتصادی معاملات دونوں متاثر ہو سکتے ہیں۔ حلال سرٹیفکیشن کا معاملہ صرف مسلمان برادری کے لیے نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے ایک اہم موضوع بن گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، اس بحث میں موجودہ حکومت کی پالیسیوں کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے کہ آیا وہ عوامی مفاد میں ہیں یا نہیں۔

سپریم کورٹ کے سامنے یہ تمام پہلو رکھے جائیں گے اور جلد ہی ہم دیکھیں گے کہ کیا عدالت اس معاملے میں کیا فیصلہ دیتی ہے۔