جموں و کشمیر کے بڈال میں پُر اسرار اموات کا خوفناک سلسلہ جاری، 17 افراد ہلاک

پُر اسرار موت: راجوری کے بڈال میں عوام میں خوف و ہراس

جموں و کشمیر کے راجوری ضلع کے بڈال گاؤں میں پُر اسرار اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک 17 افراد کی جانیں جا چکی ہیں، اور اس کے سبب پورے علاقے میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر یہ اموات کس وجہ سے ہو رہی ہیں، لیکن ابھی تک کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔ مقامی لوگوں کے درمیان یہ خیال بڑھتا جا رہا ہے کہ یہ کسی بیماری یا وبائی صورت حال کی علامت ہو سکتی ہے۔

یہاں تک کہ پولیس، انتظامیہ اور حکومتی اہلکار بھی اس معاملے پر حیران و پریشان ہیں۔ لوگوں میں ایک عجیب سا خوف چھا گیا ہے کیونکہ موتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورتحال نے نہ صرف دیہی لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے بلکہ پورے علاقے میں ماتمی خاموشی بھی چھا گئی ہے۔ مرکز کی ایک خصوصی ٹیم بھی اس معاملے کی جانچ کے لیے یہاں پہنچی ہے جس سے لوگوں کی توقعات بڑھ گئی ہیں کہ جلد معلوم ہو جائے گا کہ یہ اموات کیوں ہو رہی ہیں۔

کیا ہورہا ہے؟

بڈال گاؤں میں حالیہ دنوں میں بہت سی اموات ہوئی ہیں، جن میں سب سے حالیہ واقعہ محمد اسلم کی بیٹی یاسمین کوثر کی موت کا ہے۔ یاسمین کی لاش جب گاؤں پہنچی تو پورے علاقے میں سوگ کا ماحول چھا گیا۔ یاسمین کوثر نے علاج کے دوران جموں کے ایس ایم جی ایس اسپتال میں دم توڑ دیا تھا۔ ان کی آخری رسومات میں علاقے کے MLA جاوید اقبال بھی شریک ہوئے۔ یاسمین کی تدفین اس کے رشتہ داروں کے ساتھ کی گئی ہے، جن کی موت پہلے ہی ہو چکی ہے جس سے لوگ مزید خوفزدہ ہیں۔

مولانا صاحب کی باتیں لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں تک پہنچ گئیں، جب انہوں نے کہا کہ تین خاندانوں میں 17 لوگوں کی موت کا یہ سانحہ ایک بڑا سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ جو بھی اس کی وجہ ہے، وہ سامنے آئے تاکہ باقی لوگ محفوظ محسوس کریں۔ رہائشیوں کا کہنا ہے کہ یہ اموات غیر معمولی ہیں اور جب تک کوئی واضح وجہ سامنے نہ آئے، عام زندگی بہت متاثر ہوگی۔

یہ اموات کب اور کیسے ہوئیں؟

موت کی یہ پُر اسرار لہر کچھ ہی دن پہلے شروع ہوئی، جب پہلی خبر آئی کہ ایک خاندان کے افراد کا انتقال ہوا ہے۔ یہ صورتحال آہستہ آہستہ تیزی پکڑتی چلی گئی اور اب تک 17 افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ اموات کسی خاص بیماری یا زہر کی وجہ سے ہو رہی ہیں، لیکن اس بارے میں ابھی تک کوئی تصدیق نہیں کی جا سکی ہے۔

بہت سے لوگ اسلم کے گھر آ کر اپنی تعزیت پیش کر رہے ہیں، لیکن انتظامیہ کی جانب سے ہجوم کو اکٹھا ہونے سے روکا جا رہا ہے تاکہ مزید اموات نہ ہوں۔ بڈال گاؤں کے لوگ اس خوف کے ماحول سے نکلنے کے لیے دعا کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد ہی اس مسئلے کا حل نکلے۔

علاقے کی حالت اور انتظامیہ کی کوششیں

جبکہ بڈال گاؤں کے لوگوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے، وہیں حکام بھی اس معاملے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے متحرک ہیں۔ مقامی انتظامیہ نے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی ہیں جو اس واقعے کی وجوہات جاننے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ مرکزی حکومت سے بھی اس بارے میں ہدایات ملی ہیں کہ جلد سے جلد اس پُر اسرار صورتحال کا پتہ لگایا جائے۔

گاؤں کے لوگ دن رات اس خوف کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں اور مختلف افواہیں پھیل رہی ہیں۔ کچھ لوگ اس کو کسی جادو ٹونا یا روحانی مسئلے کا بھی اثر سمجھ رہے ہیں، جبکہ دیگر ڈاکٹروں کی طرف سے ہونے والی تحقیقات کے نتائج کا انتظار کر رہے ہیں۔

گاؤں میں پھیلی افواہیں

بڈال گاؤں کی موجودہ صورتحال نے لوگوں میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔ مختلف افواہیں اور چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں کہ شاید کوئی وبائی بیماری یہاں پھیل رہی ہے، لیکن اس کی تصدیق ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ مردہ جسموں میں عجیب و غریب علامات دیکھنے کی باتیں کر رہے ہیں، جو مزید خوف و ہراس کا سبب بن رہی ہیں۔

بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے اور فوری طور پر طبی ماہرین کی ٹیم کو علاقے میں بھیجا جائے تاکہ لوگوں کی جانوں کو بچایا جا سکے۔

جنگل کی آگ کی طرح پھیلی یہ افواہیں

یہ افواہیں اس وقت جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہیں جب لوگ اپنا محلہ چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں جانے کے بارے میں سوچنے لگے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں جب بھی کوئی موت ہوتی ہے، لوگ ایک دوسرے سے سوالات کرتے ہیں کہ کیا یہ موت بھی اسی پُر اسرار سلسلے کا حصہ ہے۔ اس ماحول میں رہنے والے لوگ ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ حالیہ صورتحال نے علاقے میں لوگوں کے روزمرہ کے کام کاج پر بھی منفی اثر ڈالا ہے۔ بازاروں میں خریداری کی تعداد کم ہو گئی ہے، اور لوگ گھروں میں زیادہ وقت گزارنا پسند کر رہے ہیں۔

پولیس و انتظامیہ کی کوششیں

پولیس و انتظامیہ نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہے اور کچھ مقامی نمائندے بھی اس سلسلے میں لوگوں کی مدد کے لیے آگے آئے ہیں۔ لیکن حالات کی شدت نے انہیں بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ کچھ مقامی رہنما بھی صورتحال کی بہتری کے لیے مختلف سماجی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

بہرحال، یہ ضروری ہے کہ عوام کو درست معلومات فراہم کی جائیں تاکہ وہ بے وجہ خوف میں مبتلا نہ ہوں۔ اس معاملے پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ جلد از جلد حقائق سامنے آئیں۔