گمراہ کن اشتہارات کے خلاف سپریم کورٹ کی سخت کارروائی: ریاستوں کو توہین عدالت کی دھمکی

ریاستوں کی بے عملی پر سپریم کورٹ کا برہمی کا اظہار

بدھ کے روز، سپریم کورٹ نے ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو واضح طور پر انتباہ کیا ہے کہ اگر وہ گمراہ کن اشتہارات کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں کرتے تو ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ جسٹس ابھئے ایس اوکا اور جسٹس اجول بھوئیاں کی بنچ نے اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کیا اور یہ دیکھا کہ کئی ریاستیں عدالت کی ہدایات پر عمل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

یہ صورتحال اس وقت سامنے آئی جب سینئر وکیل شادان فراست نے عدالت میں یہ بات پیش کی کہ مختلف ریاستوں نے گمراہ کن اشتہارات کے معاملے میں مناسب اقدامات نہیں کیے ہیں۔ اس پر بنچ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمیں یہ پتہ چلا کہ کسی بھی ریاست یا مرکز کے زیر انتظام علاقے نے عدالت کی ہدایات پر عمل نہیں کیا تو ہم ان کے خلاف ضابطہ 1971 کے تحت توہین کے مقدمات شروع کر سکتے ہیں۔

گمراہ کن اشتہارات کا معاملہ اور اس کی تفصیلات

یہ معاملہ 2022 میں انڈین میڈیکل ایسو سی ایشن (آئی ایم اے) کی طرف سے دائر ایک عرضی کے تحت اٹھا گیا تھا جس میں پتنجلی آیوروید لمیٹڈ پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے کووڈ ویکسین کے خلاف گمراہ کن مہم چلائی۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ میڈیا میں چلائے جانے والے گمراہ کن اشتہارات دوا اور جادوئی علاج (قابل اعتراض اشتہار) قانون، 1954 کے تحت غیر قانونی ہیں۔

عدالت نے یہ بھی بتایا کہ گمراہ کن اشتہارات کے خلاف کارروائی میں ریاستوں کی سست روی کو دیکھتے ہوئے اگر وہ افسران اور متعلقہ ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو ان کے خلاف توہین عدالت کے مقدمات دائر کیے جائیں گے۔ شادان فراست نے کہا کہ ریاستوں کی جانب سے ابھی تک کوئی عمل نہیں ہوا ہے اور 1954 کے قانون کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔

مختلف ریاستوں کی تعمیل کا جائزہ

سپریم کورٹ نے مختلف ریاستوں کی جانب سے دائر حلف ناموں کا ذکر کرتے ہوئے ان سے سوال کیا کہ انہوں نے شکایات کی بنیاد پر کارروائی کیوں نہیں کی۔ بنچ نے کہا کہ کچھ ریاستوں نے خلاف ورزی کرنے والوں کی شناخت میں دشواری کا سامنا کیا۔ عدالت نے سخت لہجے میں کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم توہین عدالت کی کارروائی کریں گے اور ہر ایک ریاست کے اقدامات کا معائنہ کریں گے۔

بنچ نے آئندہ ہونے والے اجلاس کی تاریخوں کا اعلان بھی کیا۔ آندھرا پردیش، دہلی، گوا، گجرات اور جموں و کشمیر کی تعمیل پر 10 فروری کو غور کیا جائے گا۔ جبکہ جھارکھنڈ، کرناٹک، کیرالہ، مدھیہ پردیش اور پنجاب کی جانب سے کی جانے والی تعمیل پر 24 فروری کو بات چیت ہوگی۔ دیگر ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں کارروائی کا جائزہ 17 مارچ کو لیا جائے گا۔

عدالت عظمیٰ کے ماضی کے احکامات

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال جولائی میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وزارت آیوش کو گمراہ کن اشتہارات پر درج شکایات اور ان پر پیش رفت کے بارے میں صارفین کو معلومات فراہم کرنے کے لیے ایک ڈیش بورڈ قائم کرنا چاہیے۔ اسی طرح کے احکامات میں مرکز و ریاستی لائسنسنگ افسروں کو بھی هدایات دی گئی تھیں کہ وہ گمراہ کن اشتہارات سے نپٹنے کے لیے از خود عملدرآمد کریں۔

اس معاملے کا پس منظر اور اس کے اثرات عوامی صحت پر مرتب ہو رہے ہیں، جس میں گمراہ کن اشتہارات کی روک تھام اور مؤثر قانونی کارروائی کی ضرورت کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔

پہلا قدم: گمراہ کن اشتہارات کی روک تھام

گمراہ کن اشتہارات کو روکنے کے لئے سپریم کورٹ کا یہ اقدام ایک اہم پیشرفت ہے۔ اس سے نہ صرف صارفین کی حفاظت ہو گی بلکہ مارکیٹ میں ان مصنوعات کی ساکھ بھی بہتر ہو گی جن کی تشہیر کی جا رہی ہے۔ عدلیہ کی مداخلت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ حکومت اور ریاستیں کس حد تک اپنے فرائض میں ناکام رہی ہیں اور انہیں عوامی صحت کی حفاظت کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے۔

گمراہ کن اشتہارات کے اثرات

گزشتہ کچھ سالوں میں، گمراہ کن اشتہارات نے صحت کے شعبے میں سنگین مسائل پیدا کیے ہیں، خصوصاً کووڈ کے دوران۔ ایسے اشتہارات نے لوگوں کے ذہنوں میں غلط تصورات پیدا کیے اور صحت کی بنیادی سہولیات کے بارے میں الجھن پیدا کی۔ ان اشتہارات کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے عوامی آگاہی کی ضرورت ہے، تاکہ وہ غیر حقیقی دعووں سے محفوظ رہ سکیں۔

سپریم کورٹ کے اس قدم کے بعد، عوام کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کی نگرانی کریں اور حکومت اور متعلقہ اداروں سے مطالبہ کریں کہ وہ ان ہدایات پر عمل درآمد کریں تاکہ گمراہ کن اشتہارات کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔

سیاسی اور سماجی اثرات

گمراہ کن اشتہارات کے خلاف یہ کارروائی صرف قانونی نہیں بلکہ سیاسی اور سماجی سطح پر بھی اہمیت رکھتی ہے۔ ریاستوں کو اس بات کی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے کہ عوامی صحت ایک بنیادی حق ہے، اور اس حق کے تحفظ کے لئے ہر ممکن اقدام کرنا چاہیئے۔