بھوک ہڑتال کی کیفیت: کسانوں کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں
پنجاب میں کسان تحریک ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جب کہ میدان میں کسان لیڈر جگجیت سنگھ ڈلیوال کی 50 دنوں کی بھوک ہڑتال جاری ہے۔ یہ مظاہرین کسانوں کی مختلف مطالبات کے حق میں سڑکوں پر ہیں، اور ان کی حالت نازک ہو چکی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ڈلیوال کی صحت تیزی سے بگڑ رہی ہے اور انہیں پانی پینے میں بھی مشکل پیش آرہی ہے۔
کسان لیڈر ابھیمنیو کوہاڑ نے منگل کو یہ اعلان کیا کہ بدھ کے روز دوپہر 2 بجے سے 111 کسان کالی پوشاک میں تا دم مرگ بھوک ہڑتال شروع کریں گے۔ یہ کسان پولیس کی رکاوٹوں کے قریب دھرنا دیں گے اور اس بات کا عزم کرتے ہیں کہ وہ اپنے رہنما کی قربانی کے لئے تیار ہیں۔ کوہاڑ کا کہنا ہے کہ جذباتی کسان اپنے حق کے لئے ہر حد تک جا سکتے ہیں۔
کسان تحریک کی یہ شدت اس بات کا ثبوت ہے کہ کسانوں کی زندگی اور ان کے مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا۔ ڈلیوال 26 نومبر 2024 سے بھوک ہڑتال پر ہیں اور اس مظاہرے کا مقصد کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی قانونی ضمانت حاصل کرنا ہے۔
کسانوں کے حقوق کے لئے جدوجہد: سختی بڑھنے کی ضرورت
حال ہی میں کسان رہنما راکیش ٹکیت نے ایک اہم اجلاس کے بعد کہا کہ ملک میں سخت حکمرانوں کے خلاف عوام میں ناراضگی بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے حکومت کو وارننگ دی کہ اگر کسانوں کے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا گیا تو وہ ملک گیر تحریک کا آغاز کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ 18 جنوری کو ایک بڑا فیصلہ کیا جائے گا اور 26 جنوری کو حسب روایت ٹریکٹر ریلی بھی نکالی جائے گی۔
کسانوں کے یہ مظاہرے صرف اس لیے نہیں ہو رہے کہ ان کی آواز سنائی نہیں دی جاتی، بلکہ یہ اس بات کا عکاس ہیں کہ کسان اپنی زندگی کے لئے لڑ رہے ہیں۔ ان کے معاشی حالات، فصلوں کی قیمتیں اور حکومتی پالیسیوں کے اثرات ان کی زندگیوں پر عمیق اثر ڈال رہے ہیں۔
یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ کسانوں کے مسائل کی طرف حکومت کی توجہ نہیں ہے۔ اسی لیے وہ تمام مشکلات کے باوجود اپنے حق کے لئے آواز بلند کر رہے ہیں۔ ڈلیوال کی بھوک ہڑتال نے کسانوں میں ایک نئی روح پھونکی ہے اور ان کا عزم مزید مضبوط ہوا ہے۔
کسانوں کے احتجاج کی وجوہات: مسائل کا حل کیا ہے؟
کسانوں کی یہ تحریک مختلف وجوہات کی بنا پر جنم لے رہی ہے۔ ان میں سب سے اہم مسئلہ کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی قانونی ضمانت ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ اگر ان کی فصلوں کی قیمتوں کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی تو وہ شدید مالی مشکلات کا سامنا کریں گے جس سے ان کی زندگیوں پر برا اثر پڑے گا۔
کسانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت کو ان کے مسائل میں سنجیدگی سے کردار ادا کرنا چاہئے۔ اگرچہ حکومت نے کسانوں سے بات چیت کی کوشش کی ہے، لیکن کسان لیڈروں کا ماننا ہے کہ اس بات چیت کا نتیجہ مثبت نہیں نکل رہا۔ مظاہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اور وہ اپنے حقوق کے لئے لڑنے کے لئے تیار ہیں۔
کسان تحریک کے رہنماوں کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج صرف ان کے حقوق کے لئے نہیں، بلکہ ان کی زندگیوں کی بقاء کے لئے ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ان کے مسائل کو سمجھیں اور فوری حل کی کوشش کریں۔
کسانوں کی یہ تحریک نہ صرف پنجاب بلکہ ملک بھر کے کسانوں کے لئے ایک مثال بن چکی ہے کہ اگر عوام کو اپنے حقوق کا علم ہو تو وہ اپنی آواز بلند کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنی حکومت سے بھی جواب دہی کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔
کسانوں کے مسائل کے حل کے لئے سوشل میڈیا بھی ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ لوگ اپنے مسائل کو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں جس سے ان کی آواز کو مزید قوت ملتی ہے۔
آنے والے دنوں میں کیا توقع کی جانی چاہئے؟
آنے والے دنوں میں کسانوں کے احتجاج کی شدت میں مزید اضافہ ہونے کی توقع ہے۔ ان کا عزم ہے کہ وہ اپنے حق کے لئے لڑتے رہیں گے۔ کسانوں نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے تو وہ مزید اقدامات کریں گے۔ 18 جنوری کو ہونے والے بڑے فیصلے کا انتظار کیا جا رہا ہے، جو کہ کسان تحریک کا ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔
کسان تحریک میں شرکت کرنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اور لوگوں کا جذبہ دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ تحریک ختم ہونے والی نہیں۔ کسانوں کے حقوق کے لئے یہ جدوجہد ایک نئی تحریک کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
یہ ضروری ہے کہ حکومت فوری طور پر کسانوں کے مسائل سنجیدگی سے لے اور ان کے حقوق کے دفاع کے لئے اقدامات کرے۔ کسانوں کی اس جدوجہد نے ثابت کر دیا ہے کہ جب عوام اپنی آواز بلند کرتے ہیں تو وہ حقیقی تبدیلی لا سکتے ہیں۔