نئی دہلی: دہلی اسمبلی انتخابات کے قریب آتے ہی بی جے پی کے اندرونی خلفشار نے شدت اختیار کر لی ہے۔ پارٹی کی جانب سے امیدواروں کی فہرست کے اعلان کے بعد مختلف حلقوں میں ناراض کارکنان کی طرف سے بغاوت کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ خاص طور پر مہرولی اور کراول نگر جیسے علاقوں میں کارکنوں کی مایوسی اور احتجاج کے واقعات پیش آئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں جاری کردہ دوسری امیدواروں کی فہرست میں سابقہ پانچ مرتبہ کے ایم ایل اے موہن سنگھ بشٹ کا ٹکٹ کاٹ کر کپل مشرا کو نامزد کیا گیا، جس کے نتیجے میں بشٹ نے آزاد امیدوار کے طور پر انتخابی میدان میں اترنے کا اعلان کیا ہے۔
ادھوری کہانیاں اور پارٹی کے چیلنجز
بی جے پی کے اندرونی مسائل کے علاوہ، پارٹی کے لئے یہ بھی ایک چیلنج ہے کہ کیسے وہ اپنے ناراض رہنماؤں کو مناسب طور پر منائے تاکہ ان کی مایوسی انتخابی مہم کی کارکردگی پر منفی اثر نہ ڈالے۔ پارٹی کے دیگر ناراض رہنما جیسے نیل دمن کھتری نے بھی عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات لڑ سکتے ہیں۔ نریلا سے تعلق رکھنے والے کھتری کے علاوہ، سلطان پور ماجرا سے کرم سنگھ کرما کی نامزدگی کے خلاف بھی مظاہرے دیکھنے کو ملے ہیں۔
کیا ہو رہا ہے دہلی میں؟
دہلی میں بی جے پی نے اپنی انتخابی مہم کو موثر بنانے کے لئے ہریانہ کے رہنماؤں کو بھی شامل کیا ہے۔ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی اور دیگر وزراء انتخابی حکمت عملی تیار کرنے میں مصروف ہیں، جن میں بوٹھ مینجمنٹ کے تجربات کا بھی بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی کے سامنے ایک بڑا چیلنج یہ بھی ہے کہ وہ اپنے اندرونی اختلافات کو ٹھیک کرے تاکہ ان کی انتخابی مہم متاثر نہ ہو۔
کیا ہوگا آگے؟
بی جے پی کی قیادت اس بات کو تسلیم کر رہی ہے کہ اگرچہ پارٹی کے اندر اختلافات بڑھ رہے ہیں، لیکن ان کے حل کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ پارٹی کے سینیئر رہنما اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ کس طرح سے ناراض کارکنان کے مسائل کو حل کیا جا سکے اور انہیں دوبارہ پارٹی میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے۔
نئی چالیں اور ممکنہ اثرات
بی جے پی کے اندر بغاوت کی لہریں ان کی انتخابی حکمت عملی پر گہرے اثر ڈال سکتی ہیں۔ پارٹی نے کئی جگہوں پر مظاہروں کا سامنا کیا ہے، اور ان کے لئے یہ بہت اہم ہے کہ وہ جلدی سے سامنے آنے والے مسائل کا حل نکالیں تاکہ ان کی انتخابی کارکردگی متاثر نہ ہو۔ اگر پارٹی اپنے ناراض رہنماؤں کو منانے میں ناکام رہتی ہے، تو اس کے نتیجے میں دہلی میں ان کی انتخابی مہم کو بڑا دھچکا لگ سکتا ہے۔
رہنما کی آوازیں
کچھ رہنما واضح طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ان کی آواز نہیں سنی گئی تو وہ آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اترنے کو تیار ہیں۔ خاص طور پر موہن سنگھ بشٹ کا بیان کہ انہوں نے آزاد امیدوار کے طور پر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کی مایوسی بہت گہری ہے۔ ان کا یہ اقدام باقیوں کے لئے ایک مثال بن سکتا ہے، جس سے دیگر رہنما بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کر سکتے ہیں۔
بی جے پی کی متبادل حکمت عملی
بی جے پی کی قیادت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ انہیں اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے فوری ایکشن لینا ہوگا۔ پارٹی کی مشاورت میں یہ بات چیت کی جا رہی ہے کہ کس طرح سے انجیئرنگ کو استعمال کر کے اپنے کارکنان کی مایوسی کو دور کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ، پارٹی کی جانب سے نئے امیدواروں کو شامل کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں تاکہ ممکنہ طور پر ناراض رہنماؤں کے دلوں کو جیتا جا سکے۔