دھنباد کے اسکول میں طالبات کے ساتھ واقعہ، انتظامیہ کا معافی کا اعلان، تحقیقات نے شواہد نہ ملنے کی تصدیق کی

دھنباد میں طالبات کے ساتھ ہونے والے متنازعہ واقعے کی تفصیلات اور اسکول انتظامیہ کی معافی

دھنباد کے ڈگواڈیہہ کارمل اسکول میں 9 جنوری کو دسویں جماعت کی طالبات کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ایک نئے تنازع کی صورت اختیار کر گیا۔ اس واقعے کے بعد اسکول کی انتظامیہ نے معافی مانگ لی ہے۔ تحقیقات کے دوران ضلع کے متعدد اعلیٰ افسران نے اسکول کا دورہ کیا اور سی سی ٹی وی کی فوٹیج کا تفصیلی جائزہ لیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ آیا کوئی قابل اعتراض شواہد موجود ہیں یا نہیں۔

ایس ڈی ایم راجیش کمار نے اس بارے میں بتایا کہ تمام فریقین کی بات چیت کی گئی اور والدین کے ساتھ سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ بھی لیا گیا۔ 10 گھنٹے کی تحقیقات کے بعد، اسکول کے پرنسپل نے اپنی غلطی تسلیم کی اور آئندہ ایسی صورتحال کی روک تھام کا وعدہ کیا۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب طالبات نے اپنے امتحانی دن کے آخری حصے میں ایک دوسرے کے شرٹس پر نیک خواہشات اور آٹوگراف لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ ایک روایت ہے جو یادگار بنانے کے لئے کی جاتی ہے، لیکن اسکول کی پرنسپل کو یہ طرز عمل ناپسند آیا اور انہوں نے مبینہ طور پر تقریباً 80 طالبات سے شرٹ اتارنے کا کہا، اور ان کی گھر واپس جانے کی اجازت صرف بلیزر میں دی۔

متاثرہ طالبات اور والدین کے ناراض ردعمل

اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی، جہاں والدین اور عوام نے اسکول انتظامیہ کے رویے پر سخت تنقید کی۔ متاثرہ طالبات کے والدین نے ڈپٹی کمشنر مادھوی مشرا سے ملاقات کی اور اسکول کی پرنسپل کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا۔ والدین نے یہ بھی کہا کہ اس واقعے نے ان کی بیٹیوں پر شدید ذہنی دباؤ ڈالا ہے، جو ان کے بورڈ امتحانات کی تیاری کو متاثر کر سکتا ہے۔

جیسے ہی معاملہ پیچیدہ ہوا، ڈپٹی کمشنر نے فوری طور پر ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جس میں ایس ڈی ایم، ڈی ای او اور پولیس حکام شامل تھے۔ یہ ٹیم اسکول کے دورے کے دوران مکمل چھان بین میں مصروف رہی، مگر حکام کو سی سی ٹی وی فوٹیج اور کوئی بھی قابل اعتراض شواہد نہیں ملے۔

تحقیقات کا نتیجہ اور انتظامیہ کی معافی

اس کے بعد، پرنسپل نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تمام متاثرہ طلبا اور والدین سے معافی مانگی۔ ایس ڈی ایم راجیش کمار نے تحقیقات کے اختتام پر کہا کہ "تمام ملوث فریقوں سے مؤقف سنا گیا اور شواہد کا مکمل جائزہ لیا گیا، جس کے بعد یہ معاملہ والدین اور اسکول انتظامیہ کی رضامندی سے ختم کر دیا گیا ہے۔”

یہ واقعہ دھنباد میں تعلیم کے حوالے سے ایک نئے سوالات اٹھاتا ہے۔ والدین نے مطالبہ کیا ہے کہ اس طرح کے متنازع رویوں کی سختی سے روک تھام کی جائے، تاکہ طلباء کی تعلیم اور ذہنی صحت متاثر نہ ہو۔

معاملے کی اہمیت

یہ واقعہ ہمیں اس جانب متوجہ کرتا ہے کہ تعلیمی ادارے نہ صرف علم کی روشنی پھیلانے کے لیے ہیں بلکہ انہیں اخلاقی اقدار کی تعلیم بھی دینی چاہیے۔ اس طرح کے واقعات طلباء کی ذہنی حالت پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں اور ان کی تعلیم میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

اس واقعے کی تفتیش اور اس پر والدین کی غم و غصہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تعلیمی اداروں میں شفافیت اور احتساب کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اسکولوں کو چاہیے کہ وہ طلباء کے جذبات کا احترام کریں اور ان کے حقوق کی حفاظت کریں۔