بہار میں بی پی ایس سی امتحانات کی بے ضابطگیوں کے خلاف طلباء کا زبردست مظاہرہ
بہار میں بی پی ایس سی (بہار پبلک سروس کمیشن) امتحانات میں مبینہ بے ضابطگیوں کے خلاف طلباء کی تحریک زور پکڑتی جا رہی ہے۔ پٹنہ میں، طلباء نے آج زبردست مظاہرہ کیا جس کی قیادت پورنیہ سے رکن پارلیمنٹ پپو یادو نے کی۔ انہوں نے 12 جنوری کو بہار بند کا اعلان کیا اور کاروباریوں سے بھی درخواست کی کہ وہ اس تحریک میں شامل ہوں۔ ان کی درخواست پر، بھیم آرمی اور اے آئی ایم آئی ایم جیسے تنظیموں نے بھی اس بند کی حمایت کی، جس سے مظاہرے کی شدت میں اور اضافہ ہوا۔
طلباء کی مظاہروں کی تفصیلات اور ان کا مقصد
جب طلباء نے سڑکوں پر آ کر احتجاج کیا، تو انہوں نے کئی جگہوں پر ٹائر جلائے، جس کے نتیجے میں ٹریفک میں خلل پیدا ہوا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ پُرامن طریقے سے اپنی بات پیش کر رہے ہیں، اور دکاندار خود ہی اپنی دکانیں بند کر رہے ہیں۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں جھنڈے تھے اور وہ نعرے بازی کر رہے تھے، جس سے ان کی شدت اور عزم کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔
ایک احتجاجی نے بتایا کہ گزشتہ رات پولیس نے طلباء پر لاٹھی چارج کیا تھا، جسے انہوں نے غلط قرار دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب تک بی پی ایس سی امتحان منسوخ نہیں ہوتا، ان کا احتجاج جاری رہے گا۔ مظاہرین نے این آئی ٹی موڑ سے بورنگ روڈ چوراہا تک جانے کا ارادہ کیا، جہاں مزید طلباء شامل ہونے کی توقع تھی۔
سیاسی پس منظر اور پپو یادو کی سخت تنقید
بہر حال، پورنیہ سے رکن پارلیمنٹ پپو یادو نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ یہ صرف بی پی ایس سی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ملک کے دیگر امتحانات کے پیپر لیک ہونے کا بھی معاملہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ دنوں میں میڈیکل امتحانات سے متعلق شواہد سامنے آئے ہیں، جن میں جلے ہوئے ایڈمٹ کارڈ ایک بااثر شخص کے گھر سے ملے۔
مقصد یہ ہے کہ جو بھی امتحانات ہوئے، ان کے پیپر لیک ہونے کی شکایات آ رہی ہیں، چاہے وہ سپاہی بھرتی ہو یا کلرک امتحان۔ پپو یادو نے کہا کہ اس کے پیچھے بھاری مافیا کا ہاتھ ہے، جو کسی نہ کسی بڑے رہنما یا رشتہ دار سے جڑا ہوا ہے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ یہ سب مستقبل کے طلباء کے مستقبل کو برباد کرنے کی ایک سازش ہے، جس کے خلاف ہر ایک کو آواز بلند کرنی ہوگی۔
طلباء کا عزم اور مطالبات
طلباء نے اپنے مطالبات میں کہا ہے کہ بی پی ایس سی کا امتحان فوری طور پر منسوخ کیا جائے اور اس کی جانچ کی جائے۔ ان طلباء نے شکایت کی کہ گزشتہ چند سالوں میں ہونے والے مختلف امتحانات میں بے ضابطگیاں اور پیپر لیک ہونے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے طلباء کے مستقبل پر منفی اثر پڑا ہے۔
احتجاج کے دوران موجود ایک طلبہ رہنما نے کہا کہ "ہم اپنے حقوق کے لئے لڑ رہے ہیں اور ہم اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے۔” اس کا اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ طلباء کو حکومت اور متعلقہ اداروں کی جانب سے ان کے مسائل کی سنجیدگی سے لے جانے کی ضرورت ہے۔
حکومت کی خاموشی اور طلباء کا ردعمل
حکومت کی جانب سے ان مطالبات پر کوئی ٹھوس جواب نہ آنے کی وجہ سے طلباء میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات پر غور نہ کیا تو وہ مزید سخت اقدامات کریں گے۔
مظاہروں کے دوران، طلباء نے سوشل میڈیا کا بھی سہارا لیا، جہاں انہوں نے اپنے تجربات اور مسائل کو دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ، کئی طلباء نے مقامی میڈیا کے ذریعے اپنی باتیں پیش کیں، جس نے ان کی تحریک کو مزید مہمیز بخشی۔
طلباء کی تحریک کے اثرات
اس تحریک کا اثر صرف پٹنہ تک محدود نہیں رہا بلکہ ریاست کی دیگر جگہوں پر بھی اس کی گونج سنی گئی۔ مختلف شہروں میں طلباء نے حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے اور یہ مطالبات کیے کہ بی پی ایس سی امتحان کی تحقیقات کی جائیں۔
یہ صورتحال بتاتی ہے کہ طلباء کے عزم کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق کے لئے لڑنے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت اس معاملے میں سنجیدگی سے اقدامات نہیں اٹھاتی تو مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔
حکومت کی ممکنہ کارروائیاں اور عوامی ردعمل
حکومت نے اب تک اس معاملے پر کوئی واضح بیان نہیں دیا ہے۔ اس صورتحال میں، عوامی توقعات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ جلد ہی حکومت کی طرف سے کوئی مؤثر اقدامات کیے جائیں گے۔ البتہ، اگر حکومت نے یہ معاملہ سنجیدگی سے نہ لیا تو ممکنہ طور پر یہ تحریک مزید طاقت پکڑ سکتی ہے۔