افغانستان میں زلزلے کے جھٹکے، قوم میں خوف و ہراس کی لہر

افغانستان میں زلزلے کی شدت اور اثرات

افغانستان میں ایک بار پھر زمین لرز گئی ہے، جہاں 4.2 شدت کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔ یہ زلزلہ شمالی افغانستان میں ہندوستانی وقت کے مطابق صبح 5:05 بجے آیا۔ نیشنل سینٹر آف سسمولاجی (این سی ایس) کے مطابق اس زلزلے کا مرکز 10 کلومیٹر کی گہرائی میں تھا۔ اس زلزلے کے نتیجے میں کئی صوبوں اور شہری علاقوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ یہ زلزلہ ایک خطرناک حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ افغانستان زلزلے کے خطرات کی زد میں ہے۔

اس زلزلے کے بعد، انٹرنیشنل فیڈریشن آف دی ریڈ کراس اینڈ ریس کریسنٹ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان دنیا کے سب سے زیادہ حساس زلزلہ زدہ ممالک میں شامل ہے۔ اگرچہ ملک میں زلزلوں کے جھٹکے کوئی نئی بات نہیں، لیکن یہ دو دن میں دوسری بار ہے جب افغانستان میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔ دو دن قبل، جرم شہر کے قریب 4.6 شدت کا زلزلہ آیا تھا، جس کی گہرائی 196 کلومیٹر تھی۔

یہ مفہوم انتہائی اہم ہے کہ افغانستان میں زلزلوں کی موجودگی کیسے نشاندہی کرتی ہے کہ یہ ملک کس قدر خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ نوٹرے ڈم گلوبل ایڈاپٹیشن انڈیکس کے مطابق، افغانستان حساسیت کے معاملے میں چوتھے نمبر پر ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں ملک میں تقریباً 400 زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جا چکے ہیں، جن میں اکتوبر 2023 میں ہیرات میں آنے والا 6.3 شدت کا زلزلہ بھی شامل ہے۔

زلزلے کے بنیادی اثرات اور حکومتی امداد

افغانستان میں زلزلوں کی شدت کے اثرات بہت مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، گزشتہ سال 7 اکتوبر کو ہیرات صوبہ میں آنے والا 6.3 شدت کا زلزلہ کئی گاؤں کو بُری طرح سے متاثر کر چکا ہے اور اسے افغانستان کے حالیہ تاریخ میں سب سے تباہ کن زلزلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ایسے میں افغان حکومت اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے امداد کی ضرورت ہمیشہ موجود رہتی ہے۔

یو این اے ایم اے نے اکتوبر 2023 میں آفات کے خطرے میں کمی کے عالمی دن کے موقع پر افغانستان میں بین الاقوامی امداد کی ضرورت پر زور دیا۔ یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ جیسے جیسے زلزلے کے خطرات بڑھتے ہیں، ویسے ویسے بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ ان متاثرہ علاقوں میں امداد فراہم کریں۔

افغانی عوام نے ہمیشہ زلزلوں کے دوران ایک دوسرے کا تعاون کیا ہے، لیکن حکومت کو بھی اپنی جانب سے مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ضروری امداد بروقت فراہم کی جا سکے۔ زلزلے کی شدت اور مواقع کو مدنظر رکھتے ہوئے، حکومت کو بین الاقوامی امداد کو منظم کرنے میں بھی بہتر کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ متاثرہ لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لائی جا سکے۔

علاقائی اور عالمی اثرات

یہ کہنا کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ زلزلوں کے اثرات صرف افغانستان تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ خطے کے دیگر ممالک پر بھی اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ زلزلے کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے لیے علاقائی تعاون کی ضرورت ہے۔ خطے کے ممالک کو ایک دوسرے کی مدد کرنی ہوگی، خاص طور پر امدادی سرگرمیوں کے دوران۔

اس کے علاوہ، عالمی برادری کو بھی افغانستان کے زلزلہ زدہ علاقوں کی جانب توجہ دینی ہوگی۔ زلزلوں کے بعد متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے غیر ملکی امداد ایک اہم عنصر ہو سکتی ہے۔ عالمی ادارے اور این جی اوز کو اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ امدادی سرگرمیوں میں شامل ہوں اور متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیے اپنی خدمات فراہم کریں۔

افغانستان میں زلزلوں کی روک تھام اور آگاہی

زلزلوں کے خطرات سے آگاہی پیدا کرنے کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کو بہت سے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ آگاہی پروگرامز کا انعقاد کیا جانا چاہئے تاکہ لوگوں کو زلزلوں کے دوران کس طرح برتاؤ کرنا چاہئے اور حفاظتی تدابیر کا علم ہو۔ عام لوگوں کو بھی زلزلوں کی علامات اور حفاظتی تدابیر کے بارے میں آگاہ کرنا انتہائی اہم ہے۔

اس کے علاوہ، حکومت کو ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا ایک مؤثر نظام قائم کرنا ہوگا تاکہ زلزلے کی صورت میں فوری امداد فراہم کی جا سکے۔ ترقی پذیر ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت اور ادارے یہ جان سکتے ہیں کہ کس طرح زلزلے کے خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے اور لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔

افغانستان میں زلزلوں کی تاریخ

افغانستان کی زمین ہمیشہ سے ہی زلزلوں کی زد میں رہی ہے۔ جب بھی زمین لرزتی ہے، یہ محض ایک قدرتی واقعہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی تاریخ میں ایک گہرا اثر ڈالتی ہے۔ ماضی میں آئے زلزلے نے انسانی زندگیوں میں تبدیلیاں کی ہیں۔ زلزلے کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے اور بہت سے گاؤں برباد ہوگئے ہیں۔

افغانستان کی حکومت اور بین الاقوامی برادری کے درمیان مشترکہ اقدامات ضروری ہیں تاکہ زلزلے کی تباہ کاریوں کو کم سے کم کیا جا سکے۔ یہ اقدامات زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر کیے جانے چاہئیں تاکہ مؤثر نتائج حاصل کیے جا سکیں۔