آج کے وقت کی اہم سیاسی بھونچال
دہلی کی سیاسی فضا میں تازہ ترین ہلچل کے دوران، کانگریس پارٹی نے جمعہ کے روز دہلی کے سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال پر سخت تنقید کی ہے، انہیں بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر اور شہید بھگت سنگھ کے نظریات کے خلاف قرار دیا ہے۔ دہلی پردیش کانگریس کمیٹی کے دفتر میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، پارٹی کے رہنما راجندر پال گوتم نے ان الزامات کو عیاں کیا اور کیجریوال کی پالیسیوں پر سوالات اٹھائے۔
کیجریوال کا دوہرا رویہ
راجندر پال گوتم نے اپنی گفتگو میں کہا کہ اروند کیجریوال اپنے دفتر میں تو بابا صاحب امبیڈکر اور بھگت سنگھ کی تصاویر آویزاں کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ان دونوں عظیم شخصیات کے نظریات سے دور ہیں۔ ان کا یہ بیان دہلی کی سیاست میں ایک نیا موڑ ثابت ہو سکتا ہے، خاص طور پر جب کہ دہلی کی 70 رکنی اسمبلی کے انتخاب کی تاریخ قریب آ رہی ہے۔ "آپ نے کبھی بھی کیجریوال کو ذات پر مبنی مردم شماری یا سماجی انصاف جیسے مقامی مسائل پر بات کرتے ہوئے نہیں سنا ہوگا،” گوتم نے مزید کہا۔
کیا ہے ذات پر مبنی مردم شماری؟
ذات پر مبنی مردم شماری کا مقصد مختلف ذاتوں کی آبادی کا اندازہ لگانا ہے، تاکہ اس کے تحت حکومت بہتر پالیسیز تشکیل دے سکے۔ سماجی انصاف کے نظریات پر عملدرآمد، سماجی انصاف کے اصولوں کے مطابق عوام کو ان کے حقوق دلانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ لیکن کیجریوال کی خاموشی نے ان اہم موضوعات پر سوالات کھڑے کیے ہیں۔
بی جے پی پر تنقید
راجندر پال گوتم کے ساتھ کانگریس کے درج فہرست ذاتوں کے شعبے کے صدر راجیش لیلوتھیا نے بھی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر کڑی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی دہلی یونیورسٹی میں منو اسمرتی کو نصاب میں شامل کرنے کے خیال کی حمایت کر رہی ہے، جو کہ ملک کے آئین میں درج حقوق کے خلاف ہے۔ لیلوتھیا کا کہنا تھا کہ "ہم آئین کے تحت ملنے والے حقوق کی بات کرتے ہیں، جبکہ بی جے پی تعلیمی اداروں میں ریزرویشن کے معاملات کو نظرانداز کر رہی ہے۔”
انتخابات کی تیاریاں
دہلی کی اسمبلی کے انتخابات 5 فروری کو ہونے ہیں، جبکہ ووٹوں کی گنتی 8 فروری کو کی جائے گی۔ ان انتخابات کی تیاریوں میں مختلف سیاسی جماعتیں اپنی حکمت عملیوں پر زور دے رہی ہیں۔ کانگریس کی جانب سے کیجریوال پر الزامات اور ان کے نظریات کی تنقید نے یقینی طور پر انتخابی مہم کو نئی جہت دی ہے۔
سماجی انصاف کے حقوق کی اہمیت
سماجی انصاف کا اصول ایک مستحکم اور ترقی یافتہ معاشرہ کی تشکیل کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اگر کوئی حکومت ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہے تو اس سے قوم میں بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ کانگریس کی جانب سے کیجریوال کے خلاف اٹھائے گئے سوالات ان مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جن پر عوام کی توجہ کی ضرورت ہے۔
دہلی کی سیاسی حرکیات
دہلی کی سیاسی حرکیات میں ان دنوں مختلف ایشوز ایک ساتھ چل رہے ہیں، جس میں تعلیم، صحت اور سماجی انصاف کے مسائل نمایاں ہیں۔ حالیہ سیاسی بیانات نے واضح کیا ہے کہ مختلف جماعتوں کے درمیان نظریاتی اختلافات کس قدر گہرے ہیں۔ کانگریس کا یہ نیا موقف ایک بار پھر دہلی کی سیاست میں ہلچل پیدا کرسکتا ہے۔
آگے کا راستہ
سیاسی جماعتوں کے درمیان بحث و مباحثہ جاری رہے گا، لیکن عوامی رائے کا اثر ان انتخابات کے نتائج پر پڑے گا۔ کیجریوال کی حکمت عملی اور کانگریس کے الزامات دونوں ہی عوام میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انتخابات کے قریب آتے ہی یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ عوام کس جماعت کے نظریات کو اہمیت دیتے ہیں۔
مستقبل کی سیاسی پیشگوئی
انتخابات کے بعد کیجریوال اور کانگریس دونوں کو عوامی رائے کی روشنی میں اپنی حکمت عملیوں کی تشکیل کرنی ہوگی۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں عوامی حمایت حاصل کرنا ضروری ہوگا تاکہ وہ اپنی پوزیشن برقرار رکھ سکیں۔ اس دوران، سماجی انصاف، ذات پر مبنی مردم شماری اور تعلیمی اصلاحات جیسے موضوعات اہم رہیں گے۔