اجین میں نام تبدیلی: کیا واقعی یہ تبدیلیاں مناسب ہیں؟
مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومت نے حالیہ دنوں میں گاؤں، شہر، اسٹیشنوں اور سڑکوں کے ناموں کی تبدیلی میں تیزی لائی ہے۔ گزشتہ اتوار کو وزیر اعلیٰ موہن یادو نے اجین میں تین گاؤں کے ناموں کی تبدیلی کا اعلان کیا، جن میں سے یہ تینوں گاؤں کے نام مسلمان ثقافتی ورثے سے متعلق تھے۔ اس کے بعد کانگریس نے وزیر اعلیٰ کو ایک خط لکھ کر دیگر گاؤں کے ناموں کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے، جن میں مختلف ذاتوں کے حوالہ جات شامل ہیں۔ اس خط میں کانگریس کے ترجمان بھوپیندر گپتا نے سوال اٹھایا کہ حکومت اگر مسلمانوں کے ناموں پر اعتراض کر رہی ہے، تو ذاتوں کے ناموں پر غور کیوں نہیں کیا جا رہا؟
یہ نا صرف مقامی شناخت کی تبدیلی کا معاملہ ہے، بلکہ یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح حکومتیں ثقافتی اور سماجی سیاق و سباق کو نظر انداز کرتی ہیں۔ واضح رہے کہ اجین کے نام تبدیل کیے جانے والے گاؤں میں سے مولانا کو وکرم نگر، جہانگیر پور کو جگدیش پور اور غزنی کھیڑی کو چامنڈا ماتا نگری میں تبدیل کیا گیا ہے۔ اس عمل نے سیاسی ماحول کو مزید گرما دیا ہے، اور سوالات اٹھائے ہیں کہ آیا یہ تبدیلیاں ضروری ہیں یا صرف سیاسی فائدے کے لئے کی جا رہی ہیں۔
ناموں کی تبدیلی: کیوں ہے یہ مسئلہ؟
مقامی سیاست میں ناموں کی تبدیلی ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ یہ عمل نہ صرف مقامی ثقافت کی عکاسی کرتا ہے بلکہ علاقائی شناخت میں بھی بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بی جے پی کی حکومت نے گذشتہ بیس سالوں میں مختلف شہروں اور قصبوں کے ناموں میں تبدیلیاں کی ہیں، اور یہ تبدیلیاں عموماً مذہبی اور قومی شناخت کے گرد گھومتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تبدیلیاں کس حد تک صحیح ہیں اور کیا ان کا مقصد واقعی مقامی ثقافت کی بہتری ہے یا یہ صرف سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے کی جا رہی ہیں؟
بھوپیندر گپتا نے اپنی خط میں وضاحت کی ہے کہ ٹیکم گڑھ ضلع میں کئی گاؤں کے نام، جیسے کہ لوہارپورہ، ڈھمرولا اور چمرولا، ذات کی شناخت کے حوالے سے ہیں اور انہیں آئینی طور پر غیر موزوں قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان ناموں کی تبدیلی کے لئے بھی از سر نو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ سماجی انصاف اور ثقافتی احترام کو برقرار رکھا جا سکے۔
کیا ناموں کی تبدیلی صرف ایک سیاسی چال ہے؟
بی جے پی حکومت کی ناموں کی تبدیلی کی مہم کو صرف سیاسی چال سمجھا جا رہا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں نہ صرف فضول ہیں بلکہ ان کا کوئی حقیقی مقصد بھی نہیں ہے۔ مقامی سیاسی نمائندوں نے بھی اس سلسلے میں سوالات اٹھائے ہیں کہ آیا یہ ناموں کی تبدیلی واقعی عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ہے یا یہ صرف ایک نظر کا کھیل ہے۔
اس کے علاوہ، بھوپیندر گپتا نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے اجین میں جب ناموں کی تبدیلی کا اعلان کیا تو ان کا قلم "مولانا” لکھنے میں اٹک گیا۔ یہ بات بھی ایک سوالیہ نشان ہے کہ حکومت کو ذات اور نسل کی بنیاد پر ناموں کی تبدیلی کے معاملے میں اسی طرح کی حساسیت کیوں نہیں دکھائی گئی۔
مکالمہ کا آغاز: کیا ناموں کی تبدیلی پر بات چیت ہونی چاہئے؟
مدھیہ پردیش میں یہ مسئلہ سامنے آنے کے بعد اب یہ سوالات بھی کیے جا رہے ہیں کہ آیا حکومت کو اس حوالے سے عوامی سطح پر گفتگو شروع کرنی چاہئے؟ کیا مقامی شناخت اور ثقافت کی حقیقی نمائندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے ناموں کے انتخاب کے لئے لوگوں کی رائے لی جانی چاہئے؟ یہ سوال اس وقت مزید اہم ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف ذاتوں اور مذاہب کی ثقافتوں کے نام مختلف جذبات اور احساسات سے منسلک ہیں۔
کانگریس کے ترجمان بھوپیندر گپتا نے وزیر اعلیٰ کو خط میں واضح کیا ہے کہ یو ای جی ایس اسکولوں کے ناموں کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت نے جو نام بدلنے کا عمل شروع کیا ہے، وہ صحیح سمت میں ہے تو پھر ذات پر مبنی ناموں کی تبدیلی بھی لازمی ہونی چاہئے۔
مزید برآں، یہ بھی ضروری ہے کہ اس سلسلے میں مختلف ثقافتوں کے لوگوں کے درمیان مکالمہ کیا جائے تاکہ کوئی ایسا فیصلہ نہ کیا جائے جو کسی کو غیر ضروری طور پر متاثر کرے یا کسی مخصوص گروہ کی شناخت کو خطرے میں ڈالے۔
مدھیہ پردیش کی حکومت: کیا اقدامات اٹھائے جائیں؟
کیا یہ ممکن ہے کہ مدھیہ پردیش کی حکومت ناموں کی تبدیلی کے اس عمل کو مزید جاری رکھے اور دیگر ذاتوں کے ناموں کو بھی تبدیل کرے؟ یا کیا یہ عمل صرف مخصوص دین اور ثقافت کے ناموں کے لئے مخصوص رہے گا؟ ان سوالات کا جواب وقت ہی دے گا۔
اس کے ساتھ ہی، یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مقامی لوگ اس تبدیلی کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں۔ اگر مقامی لوگ ان تبدیلیوں کے حق میں نہیں ہیں، تو کیا حکومت کو انہیں نظر انداز کرنا چاہئے؟ یہ تمام پہلو مدھیہ پردیش کے ثقافتی اور سیاسی منظرنامے میں اہم حیثیت رکھتے ہیں۔
یقیناً یہ سوالات صرف مدھیہ پردیش تک محدود نہیں ہیں، بلکہ یہ پورے ملک کی سیاست اور ثقافت میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنی ثقافتی ورثے کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جو سب کی ثقافتی شناخت اور احترام کو مدنظر رکھیں۔