شمبھو بارڈر پر کسانوں کی تحریک کے دوران ایک اور حادثہ، خودکشی کا واقعہ پیش آیا

کسان ریشم سنگھ کی خودکشی: کیا یہ تحریک کی تلخی کی علامت ہے؟

شمبھو بارڈر پر کسانوں کی جاری تحریک میں ایک افسوسناک واقعہ نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ترن تارن ضلع کے رہائشی کسان ریشم سنگھ نے، جو کہ کسان مزدور سنگھرش کمیٹی کے رکن تھے، سلفاس کی گولیاں کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ریشم سنگھ، جو کہ گزشتہ کئی دنوں سے شمبھو بارڈر پر دھرنے میں شامل تھے، نے اپنی زندگی کا یہ انتہائی قدم اٹھایا۔ انہوں نے صبح کے وقت یہ گولیاں کھائیں، جس کے بعد ان کی حالت نازک ہو گئی اور انہیں فوری طور پر پٹیالہ کے سرکاری راجندرا اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ان کی موت ہو گئی۔

کون ہیں ریشم سنگھ؟

ریشم سنگھ کا تعلق ترن تارن ضلع سے تھا، جو کہ زرعی مسائل کے حل کے لیے کسان تحریک کے سرگرم رکن رہے ہیں۔ ان کی موت کی تصدیق کسان رہنما تیج ویر سنگھ پنجوکھرا نے کی، جو کہ اس تحریک میں شریک رہ چکے ہیں۔ ریشم سنگھ نے چھ جنوری کو اپنے گاؤں سے شمبھو بارڈر کے لیے روانہ ہونے کے بعد وہاں دھرنے میں شامل ہوئے تھے۔

یہ واقعہ کیوں پیش آیا؟

ذرائع کے مطابق، ریشم سنگھ کی خودکشی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما تھے۔ کسانوں کی تحریک کے دوران ان پر ذہنی دباؤ بڑھتا گیا، خاص طور پر جب مطالبات کی منظوری میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی۔ ان کے اہل خانہ میں اس واقعے کے بعد شدید پراشانی کی لہر دوڑ گئی ہے، خاص طور پر ان کی اہلیہ دوِندر کور اور بیٹا اندرجیت سنگھ، جو اس تمام واقعے کی گہرائی سے متاثر ہوئے ہیں۔

کہاں اور کب یہ واقعہ ہوا؟

یہ واقعہ شمبھو بارڈر پر پیش آیا، جہاں کسانوں نے گزشتہ کئی ماہ سے احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔ ریشم سنگھ نے یہ انتہائی قدم 15 جنوری کو اٹھایا، جس کے بعد ان کی حالت نازک ہو گئی اور انہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا۔ اس واقعے کی خبر ملتے ہی ان کے خاندان کے افراد پٹیالہ کے لیے روانہ ہوئے۔

یہ واقعہ کیسے پیش آیا؟

کسان ریشم سنگھ نے صبح 9:30 بجے کے قریب سلفاس کی گولیاں کھائیں، جس کے بعد ان کی حالت بگڑ گئی۔ انہیں فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا، لیکن علاج کے دوران ان کی جان بچائی نہ جا سکی۔ اس حادثے نے کسانوں کے درمیان شدید غم و غصہ پیدا کر دیا ہے، اور اس واقعے نے تحریک کے اصل مقصد پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔

کسانوں کی تحریک: ایک پس منظر

کچھ وقت قبل، کسانوں نے اپنے حقوق اور منڈیوں میں دوگنا قیمت کی ضمانت کے لیے تحریک شروع کی تھی۔ اس تحریک کے نتیجے میں کسانوں نے دہلی کی جانب مارچ کرنے کی متعدد کوششیں کیں، لیکن ہر بار انہیں روک دیا گیا۔ 13 فروری 2023 کو، جب کسانوں کی پہلی بار کوششوں کو ناکام بنایا گیا تو اس کے بعد سے ہی انہوں نے شمبھو بارڈر پر دھرنا دیا ہوا ہے۔

کسانوں کا یہ دھرنا ان کی آواز بلند کرنے کا ایک طریقہ ہے، لیکن اب اس میں شامل افراد کی حالت ذہنی، جسمانی اور مالی لحاظ سے ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں ریشم سنگھ کی موت ایک مایوسی کا مظہر بن گئی ہے، جو کہ کسانوں کے لیے ایک سنگین مسئلہ کو اجاگر کرتی ہے۔

کسانوں کے مطالبات اور حکومتی مؤقف

کسانوں کی جانب سے ایسے کئی مطالبات ہیں جن میں ایم ایس پی کی گارنٹی قانون، سابق کے زرعی قوانین کو واپس لینے اور دیگر زرعی مسائل کو حل کرنے کے مطالبات شامل ہیں۔ حکومت نے اس معاملے میں مختلف بار مشاورت کی ہے، لیکن کسان تنظیمیں اس پر مطمئن نہیں ہیں۔

کیا یہ واقعہ تحریک میں تبدیلی کا اشارہ ہے؟

ریشم سنگھ کی خودکشی نے کسانوں کے حقوق کے لیے جاری تحریک میں ایک نیا موڑ لیا ہے۔ یہ واقعہ اس بات کا حامل ہے کہ کسانوں کی حالت کتنی نازک ہو چکی ہے۔ کسان رہنماؤں نے اس واقعے کی سخت مذمت کی ہے، اور اس کے نتیجے میں کسانوں کے درمیان نئی قوت اور تحریک کی ضرورت کا احساس بھی بڑھ چکا ہے۔