علی گڑھ کی جامع مسجد پر ہندو قلعہ قرار دینے کی نئی درخواست کا معاملہ عدالت میں پہنچ گیا

مسلمانوں کی عبادتگاہ کے تنازع کا آغاز

علی گڑھ کی جامع مسجد، جو کہ 1728 میں تعمیر کی گئی تھی، ایک نئے تنازع کا شکار ہو چکی ہے۔ حال ہی میں سنبھل کے بعد، علی گڑھ کی اس تاریخی مسجد کو ہندو قلعہ قرار دینے کی درخواست عدالت میں دائر کی گئی ہے۔ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب آر ٹی آئی ایکٹوسٹ کیشو دیو گوتم نے علی گڑھ کی ضلع عدالت میں یہ دعویٰ کیا کہ اس مسجد کے پاس موجود ایک ستون پر ‘اوم’ کا نشان پایا جاتا ہے، جو اس بات کا ثبوت سمجھا جا رہا ہے کہ یہ جگہ دراصل ہندوؤں کی تھی۔

درخواست میں کیا کہا گیا؟

درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس جامع مسجد کو آثار قدیمہ سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کے ریکارڈ میں جائیداد کے طور پر درج نہیں کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ درخواست گزار نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ یہ مسجد بنیادی طور پر ایک ہندو قلعہ تھی، جسے ناجائز طور پر مسجد میں تبدیل کیا گیا۔ اس کے علاوہ، مسجد کے اطراف موجود دکانوں اور مکانات کا کرایہ وصول کر کے سرکاری جائیداد کا ناجائز استعمال ہونے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ حکومت اس مقام پر موجود قبضوں کو ختم کرے اور اسے ہندو ‘تیرتھ استھل’ قرار دے۔

سپریم کورٹ کا ابتدائی حکم

اس معاملے میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے ملک میں کسی بھی مذہبی مقام کی حیثیت کو تبدیل کرنے سے متعلق درخواستوں کی سماعت پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ 12 دسمبر 2024 کو جاری ہونے والے ایک عبوری حکم میں عدالت نے ہدایت دی کہ ملک بھر کی عدالتیں مذہبی مقامات کی ملکیت سے متعلق نئے مقدمات درج نہ کریں۔ ان احکامات کی روشنی میں، نچلی عدالتوں کو بھی کوئی عبوری یا حتمی حکم نہیں دینا چاہیے۔ یہ معاملہ عبادت گاہوں (خصوصی دفعات) ایکٹ 1991 کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے دوران سامنے آیا۔

علی گڑھ کی جامع مسجد کی تاریخ

یہ جامع مسجد مغل شہنشاہ محمد شاہ کے دور میں بناٴی گئی، جو ایک تاریخی مقام ہے۔ اس کی تعمیر گورنر ثابت خان کے تحت شروع ہوئی اور تقریباً چار سال کے عرصے میں مکمل ہوئی۔ اس مسجد کی تاریخی اہمیت کو دیکھتے ہوئے، اس کے بارے میں ایسی درخواستیں مختلف سوالات کو جنم دیتی ہیں۔ شہری خصوصیات کے برعکس، یہ واضح ہے کہ اس مقام کی ملکیت کے حوالے سے قانونی جنگ ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔

کیا ہوگا اگلے؟

عدالت نے اس معاملے کی اگلی سماعت 17 فروری 2025 کو مقرر کی ہے۔ اس دوران حکومت کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے مؤقف کو واضح کرے۔ اس کی پڑتال کے بعد، دیکھنا یہ ہوگا کہ عدالت اس معاملے میں کیا فیصلہ کرتی ہے اور آیا علی گڑھ کی جامع مسجد کی حیثیت میں کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہے یا نہیں۔

متعلقہ مسائل اور مستقبل کی ممکنہ سماعتیں

یہ معاملہ صرف اجازت نامہ کا ہی نہیں ہے بلکہ یہ مسلم و ہندو مذاہب کے درمیان ایک بڑے تنازع کا حصہ بھی بن رہا ہے۔ ایسے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا یہ معاملہ عدالت میں طویل عرصے تک چلے گا یا جلد ہی کسی فیصلے پر پہنچے گا۔ ان سب کے ساتھ ساتھ، یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ حکومت اس معاملے میں کیا اقدامات اٹھاتی ہے۔

موسمی اثرات اور عوامی ردعمل

علی گڑھ کی جامع مسجد کا یہ معاملہ عوام میں مختلف ردعمل پیدا کر رہا ہے۔ کچھ لوگ اس تنازع کو مذہبی آزادی کے حق میں سمجھتے ہیں، جبکہ بعض اس کو تاریخی حقائق کے خلاف ایک نئی کوشش سمجھتے ہیں۔ یہ تنازع اس بات کی علامت بھی ہے کہ ملک میں مذہبی مقامات کے حوالے سے حساسیت کا کیا حال ہے اور اس کا اثر مختلف فرقوں کے درمیان تعلقات پر کس طرح پڑ سکتا ہے۔

اس کے علاوہ، یہ عوامی رائے کے مختلف پہلوؤں کا عکاس بھی ہے کہ لوگ مذہب اور تاریخ کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ یہ سوالات آہستہ آہستہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ آیا عہد حاضر میں بھی مذہبی مقامات کی حیثیت متاثر ہو رہی ہے یا نہیں۔

حکومتی اقدامات اور ممکنہ انتظامات

اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس مسئلے پر کس طرح کا جواب دیتی ہے اور آیا یہ کوئی نئی قانون سازی یا ایڈوائزری لے کر آئے گی، یا پھر یہ معاملہ سپریم کورٹ میں اپنی مکمل شکل میں بدلے گا۔ عوامی رائے، حکومت کے اقدامات اور عدلیہ کی کاروائیاں اس معاملے کے مستقبل کو متاثر کر سکتی ہیں۔

اس کے ساتھ ہی، عوامی حلقوں میں یہ بات بھی زیر غور ہے کہ کیا مذہبی مقامات کی حفاظت کے لیے کوئی قانون بنایا جائے گا یا نہیں، تاکہ اس طرح کے تنازعات کو روکا جا سکے۔