پریاگ راج میں عتیق احمد کے حوالے سے تنازعہ
پریاگ راج کی مہاکمبھ میں عتیق احمد سے متعلق ایک متنازعہ پوسٹر لگایا گیا ہے۔ اس پوسٹر میں یہ نعرہ درج ہے کہ "عتیق کی دہشت گردی سے پاک پہلے مہاکمبھ میں آپ کا دل سے خیر مقدم ہے۔” اس پوسٹر کے ساتھ عتیق احمد کی تصویر بھی موجود ہے، جس پر ایک کراس کا نشان لگا ہوا ہے۔ یہ پوسٹر راشٹریہ ہندو دل تنظیم کی جانب سے لگایا گیا ہے اور اس کے ساتھ کچھ دیگر تصاویر بھی جاری کی گئی ہیں۔
اس پوسٹر میں عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کے قاتلوں کی تصاویر دکھائی گئی ہیں۔ انہیں ‘دیو دوت’ کہا گیا ہے اور قاتلوں جیسے لولیش تیواری، ارون موریہ اور سنی سنگھ کی تصاویر کو بھی اس پوسٹر میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ پوسٹر جھونسی کوتوالی کے تحت لگایا گیا تھا۔ مہاکمبھ میلے کے موقع پر اس پوسٹر نے عوامی توجہ حاصل کی ہے اور مختلف حلقوں میں بحث کا موضوع بن گیا ہے۔
عتیق احمد کون تھے؟
عتیق احمد ایک معروف سیاسی رہنما تھے، جنہوں نے سماج وادی پارٹی کے پلیٹ فارم سے اتر پردیش اسمبلی میں رکنیت حاصل کی تھی۔ انہیں مافیا کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔ ان کی زندگی ہمیشہ تنازعات میں گھری رہی۔ 15 اپریل 2023 کو، جب انہیں جانچ کے لیے اسپتال لے جایا جا رہا تھا، تب تین نوجوانوں نے انہیں اور ان کے بھائی اشرف کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ اس واقعے نے پورے ملک میں ہلچل مچا دی اور اتر پردیش حکومت پر سخت سوالات اٹھائے گئے۔
کیا یہ پوسٹر مقاصد کی تکمیل کے لیے لگایا گیا؟
مہاکمبھ ایک عظیم مذہبی میلہ ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں زائرین شرکت کرتے ہیں۔ اس موقع پر عتیق احمد کے قاتلوں کے پوسٹر لگانے کا مقصد کیا ہے؟ یہ سوال کئی لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہو رہا ہے۔ راشٹریہ ہندو دل تنظیم کے اراکین نے اس پوسٹر کے ذریعے عتیق احمد کی شخصیت کو ایک منفی روشنی میں پیش کرنے کا ارادہ کیا ہے۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ عتیق احمد کا قتل اتنا اہمیت کا حامل ہے کہ اس پر ملک کی سیاست میں کافی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ اس واقعے نے اتر پردیش کی حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے ہیں اور عوام میں غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں نے اس واقعے پر اپنے اپنے موقف پیش کیے ہیں، جس کے نتیجے میں ایک سیاسی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
اس پوسٹر کی تصاویر سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہو رہی ہیں، جہاں مختلف لوگوں نے مختلف نظریات کا اظہار کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس اقدام کو رحمت قرار دیا ہے، جبکہ دیگر نے اسے غیر مناسب قرار دیا ہے۔ راشٹریہ ہندو دل تنظیم کے کارکنان کی جانب سے اس پوسٹر کو لگانے کا مقصد عتیق احمد کے خلاف عوامی رائے ہموار کرنا ہو سکتا ہے۔
کیا یہ واقعہ مستقبل کی سیاسی صورت حال کو متاثر کرے گا؟
مہاکمبھ جیسے اہم مذہبی موقع پر اس طرح کے پوسٹر لگانے کے بعد، کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اس سے سیاسی صورت حال میں کوئی تبدیلی آئے گی؟ عتیق احمد کا قتل اور ان کی شخصیت کے خلاف اس طرح کی مہم چلانا واقعی ایک خطرناک پہلو ہے، جو مستقبل میں بڑی سیاسی تبدیلیوں کا سبب بن سکتا ہے۔
اختتام
عتیق احمد کے قاتلوں کے حوالے سے لگائے گئے پوسٹر کی حقیقت اور اس کے ممکنہ اثرات پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف اتر پردیش کی بلکہ پورے ملک کی سیاست میں ایک نیا موڑ لا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عوامی رائے اس پوسٹر کے اثرات کے سامنے آکر تبدیل ہوگی یا پھر اس کے خلاف مزید احتجاج کی صورت پیدا ہوگی۔
مزید معلومات کے لیے، آپ کو اس خبر کے حوالے سے[اے بی پی نیوز](https://www.abplive.com) پر بھی جانچ پڑتال کرنی چاہیے۔ مہاکمبھ کے بارے میں مزید جاننے کے لیے[حکومت اتر پردیش کی ویب سائٹ](http://up.gov.in) پر بھی جا سکتے ہیں۔