مہاراشٹر میں سرپنچ سنتوش دیشمکھ کے قتل کی تحقیقات، تین ملزمان سی آئی ڈی کی تحویل میں

سنتوش دیشمکھ قتل کیس: عدالت میں ملزمان کی پیشی اور تفتیشی مراحل

مہاراشٹر کے بیڑ ضلع سے آنے والی اہم خبریں جن میں سرپنچ سنتوش دیشمکھ کا بیہمانہ قتل شامل ہے، نے علاقے میں سیاسی ہلچل مچادی ہے۔ 9 دسمبر کو پیش آنے والے اس واقعے میں دیشمکھ کو اس وقت قتل کیا گیا جب وہ ایک ونڈ مل پروجیکٹ کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے جو کہ علاقے میں تاوان وصولی کی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ اس واقعے کے بعد، عدالت نے سدرشن چندر بھان گھُلے، سدھیر سانگلے، اور سدھارتھ سوناونے نامی تین ملزمان کو گرفتار کرکے سی آئی ڈی کی 14 دن کی تحویل میں بھیج دیا ہے۔ یہ ملزمان 18 جنوری تک سی آئی ڈی کے کنٹرول میں رہیں گے اور اس دوران ان سے مزید تفتیش کی جائے گی۔

سنتوش دیشمکھ کی موت نے نہ صرف ان کے خاندان بلکہ پورے علاقے میں خوف کی لہر دوڑا دی ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب دیشمکھ نے ایک بڑی توانائی کمپنی کے خلاف کھل کر بات کی اور اسے دھمکیوں کا نشانہ بنایا۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ علاقے میں جاری ترقیاتی کاموں میں شفافیت لائیں، جو کہ مجرمانہ عناصر کے نزدیک قابلِ قبول نہیں تھا۔ تفتیشی اداروں نے تصدیق کی ہے کہ گرفتار ملزمان منظم جرائم میں ملوث ہیں اور ان کا مقصد دیشمکھ کو خاموش کرانا تھا تاکہ وہ مزید تاوان کی وصولی کی سرگرمیوں میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔

تفتیشی ادارے نے بتایا کہ ان ملزمان کی گرفتاری کے وقت یہ ثابت ہوا کہ سوناونے نے دیگر ملزمان کو دیشمکھ کی حرکتوں اور ان کی موجودگی کی معلومات فراہم کی تھیں، جس کے نتیجے میں یہ قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ اب تک اس کیس میں کئی دیگر ملزمان بھی گرفتار ہوچکے ہیں، جن میں وشنو چٹے، پررک گھُلے، مہیش کیدار شامل ہیں۔

مزید برآں، مہاراشٹر کے وزیر دھننجے منڈے کے قریبی ساتھی والمک کراڈ نے بھی خود سپردگی کی ہے اور اس وقت تفتیش کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ صورت حال نہ صرف دیشمکھ کے خاندان کے لیے بلکہ پورے مہاراشٹر کے لیے ایک سنجیدہ معاملہ ہے، جہاں قانون کے سامنے انصاف کی فراہمی کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

تفتیش کا دائرہ اور سیاسی اثرات

یہ مہلک واقعہ مہاراشٹر کی سیاست میں ایک نئی بحث کا آغاز کر چکا ہے۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ سرپنچ کی موت نے نہ صرف مقامی سیاستدانوں کی بے چینی بڑھا دی ہے بلکہ عوامی سطح پر بھی احتجاج کا آغاز ہو چکا ہے۔ مقامی لوگ اس بات پر سخت نالاں ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرمانہ سرگرمیوں کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔

اس کیس کی تفتیش میں سی آئی ڈی کی خصوصی ٹیم نے تیزی سے کارروائی کی ہے اور ملزمان کی گرفتاری کے بعد مزید ممکنہ مشتبہ افراد کی تلاش میں بھی مصروف ہیں۔ پاکستان سرمایہ داری کے خلاف مہم چلانے والوں کے لیے یہ ایک قسمت کا فیصلہ ہوگا کہ کیا عدالت ان ملزمان کو سزا دے گی یا انہیں بوجھل ہونے کی وجہ سے معاف کر دیا جائے گا۔

مزید برآں، یہ کیس اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مقامی سیاسی رہنما کس طرح خوف و ہراس کے ذریعے اپنی مرضی کو نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دیشمکھ کی موت نے واضح کیا ہے کہ ایسے کاروباری منصوبے جو عوامی مفاد میں ہیں، انہیں طاقتور افراد کی طرف سے مداخلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جبکہ حکومت نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ اس کیس کی مکمل تحقیقات کر رہی ہے، عوامی اعتقاد کو بحال کرنے کے لیے اس کی ضرورت ہے کہ وہ اس کیس میں سنگین اقدامات کرے۔

دیشمکھ کے قتل کے پس منظر میں چھپی کہانیاں

سنتوش دیشمکھ کے قتل میں کئی ایسے عوامل شامل ہیں جو اس معاملے کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔ یہ بات سب کے سامنے ہے کہ اس قسم کے جرائم میں ملوث افراد کی شمولیت نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ صرف فرد واحد کا قتل نہیں، بلکہ ایک منظم گروہ کی کارروائی کا حصہ ہے۔

اس سے قبل بھی بیڑ اور دیگر علاقوں میں ایسے جرائم کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں، جہاں مقامی رہنماؤں کو دھمکیاں دے کر ان سے طاقتور کاروباری افراد کے حق میں فیصلے حاصل کیے گئے۔ اس طرح کی سرگرمیوں نے مقامی معیشت کو متاثر کیا ہے، اور اب ضروری ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان جرائم کی جڑوں تک پہنچیں۔

گرفتار ہونے والے ملزمان میں ایک اہم شخصیت سدرشن گھُلے ہے، جس پر مبینہ طور پر کئی دیگر جرائم بھی عائد ہیں۔ ان کے علاوہ دوسرا ملزم، سدھیر سانگلے بھی جرائم کی دنیا کا حصہ رہا ہے۔ اس کے علاوہ، سوناونے بھی مقامی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے، اور ان کی مشترکہ شمولیت نے اس کیس کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔

یہ تمام حالات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ مقامی فورسز کو مزید طاقتور بنایا جائے تاکہ وہ ان جرائم کے خلاف مؤثر کارروائی کر سکیں۔ اور اس واقعے نے نہ صرف عوام کا دل توڑا ہے، بلکہ مقامی رہنماؤں کی ساکھ بھی متاثر کی ہے۔