پنجاب میں کسانوں کے مہا پنچایت کی طرف جاتے ہوئے بس کے مہلک حادثے میں 3 خواتین کی جانیں ضائع

خواتین کسانوں کی بس کا حادثہ، برنالا ضلع میں ہونے والی مہا پنچایت کا سفر

پنجاب کے برنالا ضلع میں ہفتے کو ایک دلخراش بس حادثہ پیش آیا، جس میں 3 خاتون کسانوں کی جانیں ضائع ہو گئیں جبکہ متعدد دیگر کسان شدید زخمی ہوگئے۔ یہ خواتین بھارتیہ کسان یونین (بی کے یو) ایکتا اُگرہن سے منسلک تھیں اور ہریانہ کے ٹوہنا میں ہونے والی کسان پنچایت میں شرکت کے لیے جا رہی تھیں۔ حادثے کے وقت وہ بس میں سفر کر رہی تھیں، جو کہ ایک بڑی مہا پنچایت کا حصہ تھی۔ حادثے کے بعد، زخمیوں کو فوری طور پر قریبی اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے جہاں ان کا علاج جاری ہے۔

حادثہ کے وقت بس میں موجود کسانوں کی تعداد کے بارے میں کوئی درست اعداد و شمار فی الحال سامنے نہیں آ سکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، پنجاب میں اس وقت شدید سردی کا موسم ہے اور کئی مقامات پر گھنا کہرا چھایا ہوا ہے، جس کے باعث سڑکوں پر حادثات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ پولیس افسران موقع پر پہنچ چکے ہیں اور بچاؤ اور راحتی کاموں میں مصروف ہیں۔ حادثے کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لیے تحقیقات کا آغاز بھی کردیا گیا ہے۔

سردی اور کہروں کا اثر، مہا پنچایت کی شروعات اور کسانوں کے مطالبات

پنجاب کے کئی شہروں میں اس وقت سردی کی شدت بڑھ گئی ہے اور صبح کے وقت کہرا بہت گھنا رہا۔ جالندھر، امرتسر، فرید کوٹ، پٹیالہ، موگا اور پھگواڑہ جیسے شہروں میں جمعہ کے روز بھی کہرا چھایا رہا، جس کی وجہ سے ہوائی سفر میں بھی مشکلیں پیش آئیں۔ طیاروں کے شیڈول میں تبدیلی کرنی پڑی، جس نے مسافروں کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا۔ شام کے وقت پنجاب کے کئی شہروں میں دوبارہ کہرا چھانے لگا، خاص طور پر امرتسر اور پٹھان کوٹ میں نصف رات کے وقت حد نگاہ انتہائی کم ہو گیا، جس کی وجہ سے حادثات کی تعداد بھی بڑھ سکتی ہے۔

سنیوکت کسان مورچہ (غیر سیاسی) اور کسان مزدور مورچہ (کے ایم ایم) کے بینر کے تحت، کسان دہلی کی طرف جانے کے لئے روکے جانے کے بعد سے 13 فروری سے پنجاب اور ہریانہ کے درمیان شمبھو بارڈر اور کھنوری بارڈر پر دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ سینئر کسان رہنما جگجیت سنگھ ڈلے والا اس وقت کھنوری بارڈر پر بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں، جس کا مقصد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی مرکز کی این ڈی اے حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ وہ فصلوں کی کم سے کم حمایتی قیمت (ایم ایس پی) کی قانونی گارنٹی فراہم کر سکے۔

یہ حادثہ دراصل اس وقت پیش آیا جب کسان پنچایت کی تیاریوں میں مصروف تھے اور انہیں یہ موقع ملا تھا کہ وہ اپنی باتیں حکومت تک پہنچا سکیں۔ سرد موسم اور کہرے کی وجہ سے سڑکوں پر چلنا ایک خطرہ بن گیا ہے، اس کے باوجود کسانوں نے اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے کا عزم رکھا ہے۔

حکومت کی خاموشی اور کسانوں کی جدوجہد

بھارتیہ کسان یونین (ایس کے ایم) کی جانب سے منعقد ہونے والی مہا پنچایت کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ کسانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ اس حادثے کے بعد، کسان لیڈروں نے حکومت کی خاموشی پر سوال اٹھایا ہے، کہا جارہا ہے کہ حکومت ان کی مشکلات کو نظر انداز کر رہی ہے۔ یہ وقت ہے کہ حکام کو سنجیدگی سے اس معاملے کی طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے افسوسناک واقعات سے بچا جا سکے۔

سنا جائے تو اس حادثے نے کسانوں کے درمیان ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے، جہاں انہوں نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ ان کی یہ جدوجہد اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کسانوں کی مشکلات اور ان کے مسائل کو سمجھے بغیر کوئی بھی حل تلاش کرنا ناممکن ہے۔

جرائد کے مطابق، یہ واقعہ کسانوں کے لئے ایک تلخ حقیقت ہے اور انہوں نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ وہ اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ جیسے کہ کہرا اور سردی بڑھ رہی ہے، یہ دیکھنا ہوگا کہ حکومت اس معاملے کو کیسے سنجیدگی سے لیتی ہے اور کسانوں کی مشکلات کا حل نکلتا ہے یا نہیں۔

کسانوں کی زندگی، جدوجہد اور امید

کسانوں کی زندگی ہمیشہ سے جدوجہد سے بھری رہی ہے۔ انہیں نہ صرف معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ حکومت کی عدم توجہ اور زرعی پالیسیوں کی ناکامی بھی ان کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ اس حادثے نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کے مسائل کو نظر انداز کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی زندگیوں کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔

پنجاب کے کسانوں کی یہ جدوجہد ان کی مضبوطی اور عزم کا علامت ہے۔ وہ اپنی زندگیوں کی قیمت پر بھی اپنے حقوق کے لئے اپنی آواز بلند کرنے کو تیار ہیں۔ ان کا یہ عزم کہ وہ اپنے مسائل کو حل کروائیں گے، مستقبل کے لئے امید کی کرن ہے۔

لیکن ان کے لئے یہ وقت خود کو منظم کر کے ایک نئی تحریک شروع کرنے کا ہے۔ اگرچہ یہ حادثہ ایک افسوسناک واقعہ ہے، لیکن یہ کسانوں کے حق کے لئے جدوجہد کی کہانی کو اور زیادہ طاقتور بنا دیتا ہے۔