الہ آباد ہائی کورٹ نے سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمٰن برق کی درخواست کو مسترد کر دیا
سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمٰن برق کو ایک اہم قانونی جھٹکا اس وقت لگا جب الہ آباد ہائی کورٹ نے ان کے خلاف درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔ یہ درخواست 24 نومبر کو سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ کے خلاف شاہی جامع مسجد میں سروے کے دوران ہونے والے فسادات کے حوالے سے دائر کی گئی تھی۔
کون؟ کیا؟ کہاں؟ کب؟ کیوں؟ اور کیسے؟
یہ واقعہ 24 نومبر کو اُتر پردیش کے شہر سنبھل میں پیش آیا، جب مسجد کے سروے کے دوران فسادات بھڑک اٹھے تھے۔ اس واقعہ میں پولیس نے ضیاء الرحمٰن برق کو کلیدی ملزم کے طور پر پیش کیا تھا۔ ان کے خلاف مختلف سنگین الزامات عائد کیے گئے تھے، جس کے نتیجے میں ایف آئی آر درج کی گئی۔ ضیاء الرحمٰن برق نے ہائی کورٹ میں ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کی درخواست دائر کی، مگر عدالت نے ان کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے پولیس کی تحقیقات جاری رکھنے کا حکم دیا۔
الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس راجیو گپتا اور جسٹس اظہر حسین ادریسی کی ڈویژن بنچ نے اس کیس کی سماعت کی اور اس دوران کہا کہ ایف آئی آر کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس میں درج الزامات کی نوعیت بہت سنگین ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ ضیاء الرحمٰن برق کو اس معاملے میں پولیس کی تحقیقات میں مکمل تعاون کرنا ہوگا۔
عدالت کے احکامات اور قانونی پروسیجر
عدالت نے ضیاء الرحمٰن برق کو نوٹس جاری کرنے کی ہدایت دی ہے، جس کے تحت انہیں پولیس کے سامنے پیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کروانا ہوگا۔ اگر وہ اس نوٹس کے باوجود پیش نہیں ہوتے تو ان کی گرفتاری بھی عمل میں آ سکتی ہے۔ البتہ عدالت نے یہ واضح کیا کہ اس وقت انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔
یہاں تک کہ ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے ایک پرانے حکم کی بھی تعمیل کرنے کا حکم دیا، جس میں تحقیقات کے دوران ملزمان کے حقوق کا تحفظ کرنے کا ذکر کیا گیا تھا۔ اس تناظر میں، ضیاء الرحمٰن برق کے وکیلوں نے عدالت میں دلائل دیے کہ ان کا موکل 24 نومبر کو سنبھل شہر میں موجود نہیں تھا، جس کی وجہ سے وہ ان الزامات میں ملوث نہیں ہو سکتے۔
حکومتی موقف
یوپی حکومت کے وکیل A.K. Sandh نے اپنے دلائل میں کہا کہ تحقیقات کے دوران جو بھی حقائق سامنے آئیں گے ان کے مطابق کارروائی کی جائے گی، اور اس وقت تک ایف آئی آر کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ گفتگو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ حکومت اس معاملے کو کس طرح کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے، اور اسے کس حد تک سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔
سماجی اور سیاسی اثرات
یہ واقعہ نہ صرف ضیاء الرحمٰن برق کے لیے بلکہ سماجوادی پارٹی کے لیے بھی ایک چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ سیاسی حالات میں تبدیلی کے آثار بھی پیدا کر سکتا ہے۔ اگرچہ سماجوادی پارٹی خود کو ایک مضبوط سیاسی قوت کے طور پر پیش کرتی ہے، اس طرح کے قانونی مسائل اس کے موقف کو متاثر کر سکتے ہیں۔
کیا سیاستدانوں کو قانون کے مطابق چلنا چاہیے؟
یہ واقعہ ہمیں یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ کیا سیاستدانوں کو قانون کے دائرے میں آکر ہی اپنی سرگرمیاں انجام دینی چاہئیں؟ سیاست میں شفافیت اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دینا نہایت ضروری ہے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔