اجمیر میں 813ویں عرس کی خوشیاں: وزیر اعظم مودی کی چادر روانہ کرنے کی تقریب
نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی آج شام خواجہ معین الدین چشتی کے 813ویں عرس کے موقع پر درگاہ کے لیے چادر روانہ کرنے جا رہے ہیں۔ یہ تقریب ہر سال بہار کی موسم میں منعقد ہوتی ہے، جس کے ذریعے وزیر اعظم امن اور بھائی چارے کا پیغام بھیجتے ہیں۔ اس سال بھی مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کرن رجیجو اور بی جے پی اقلیتی مورچہ کے صدر جمال صدیقی اس چادر کو لے جانے کے لیے منتخب کیے گئے ہیں، جو اسے اجمیر کی درگاہ میں پیش کریں گے۔
چادر روانہ کرنے کا مقصد اور اہمیت
یہ چادر روانہ کرنے کا یہ گیارہواں موقع ہے جب وزیر اعظم مودی خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے لیے چادر بھیج رہے ہیں۔ اس روایتی تقریب میں دہلی سے اجمیر کے لیے ایک وفد بھی بھیجا جائے گا۔ اقلیتی امور کی وزارت نے اس اہم تقریب کے لیے کافی تیاریوں کا آغاز کر دیا ہے۔ درگاہ کمیٹی، درگاہ دیوان، اور انجمن سید زادگان سمیت کئی متعلقہ تنظیموں سے نمائندوں کو نامزد کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
یہ تقریب آج شام آغاز ہو رہی ہے جب بدھ کی شام چاند نظر آئے گا۔ حاجی سید سلمان چشتی، جو صوفی فاؤنڈیشن کے چیئرمین اور اجمیر درگاہ کے گدی نشین ہیں، نے اس موقع پر عوام کو مبارکباد پیش کی۔ ان کا کہنا تھا، "یہ روایت 1947 سے جاری ہے کہ ہر سال ملک کا وزیر اعظم درگاہ کے لیے چادر بھیجتا ہے اور امن، بھائی چارے کے لیے دعا کا پیغام بھی دیتا ہے۔”
اجمیر کی درگاہ کا تاریخی پس منظر
خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ اجمیر کی ایک معروف روحانی و مذہبی جگہ ہے، جہاں ہر سال ہزاروں زائرین آتے ہیں۔ یہ درگاہ نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے بلکہ ہر مذہب کے لوگوں کے لیے ایک مقدس مقام مانا جاتا ہے۔ عرس کی تقریبات کے دوران 28 دسمبر 2024 کو درگاہ پر جھنڈے کی رسم ادائیگی کی گئی، جسے خاص طور پر بھیل واڑہ کے غوری خاندان کی طرف سے انجام دیا جاتا ہے۔
غوری خاندان کے مطابق، یہ روایت 1928 سے شروع ہوئی تھی جب فخرالدین غوری کے پیر و مرشد عبد الستار بادشاہ نے یہ رسم شروع کی۔ 1944 سے انہوں نے اپنے دادا لال محمد غوری کو یہ ذمہ داری سونپی۔ ان کے انتقال کے بعد 1991 میں ان کے بیٹے معین الدین غوری نے یہ رسم انجام دی، جبکہ 2007 سے یہ ذمہ داری فخرالدین غوری کے سپرد کی گئی۔
معنوی اور سماجی اثرات
وزیر اعظم کی جانب سے چادر بھیجنے کا یہ فعل صرف ایک مراسم تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا ایک بڑا معنوی اور سماجی اثر بھی ہے۔ یہ عمل نہ صرف امن اور محبت کی علامت ہے بلکہ مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کو بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس قسم کی تقریبات میں عوام کی شرکت کو بڑھانے کے لیے مختلف طرح کے پروگرام بھی ترتیب دیے جاتے ہیں، جن میں روحانی کلام، نعتیہ محفل اور دیگر ثقافتی سرگرمیاں شامل ہوتی ہیں۔
اجمیر کی جماعتیں اور تنظیمیں اس عرس کے موقع پر مختلف پروگرامز کا انعقاد کرتی ہیں تاکہ لوگوں کو اپنی مذہبی روایات سے آگاہ کیا جا سکے۔ اس موقع پر کھانے پینے کی اشیاء کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ ہر ایک کو شامل کیا جا سکے۔
اجمیر کی درگاہ: روحانی تسکین کا مقام
اجمیر کی درگاہ کو روحانی تسکین کا ایک اہم مقام سمجھا جاتا ہے۔ یہاں آنے والے لوگ دعا کرتے ہیں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے خواجہ معین الدین چشتی سے مدد مانگتے ہیں۔ عرس کے دوران درگاہ پر آنے والے زائرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے، اور یہ ایک بڑی روحانی محفل کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
مذہبی روایات کا تحفظ
اس تقریب کے دوران، اقلیتی امور کی وزارت نے مختلف تنظیموں کے نمائندوں کو حصہ لینے کے لیے مدعو کیا ہے۔ اس کے ذریعے مذہبی روایات کا تحفظ اور ان کی ترویج کا کام جاری رکھا جا رہا ہے۔ اس سال بھی، عرس کی تقریبات کو کامیاب بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔
اجمیر میں ہونے والی اس تقریب کی تیاری کے بارے میں وزیر اعظم کے مشیر نے بتایا، "ہم نے اس عرس کو منانے کے لیے پوری تیاری کی ہے تاکہ اسے ایک خوبصورت یادگار بنایا جا سکے۔”
اجمیر کا عرس: 1947 سے جاری روایت
یہ روایت 1947 سے جاری ہے، جب سے ہر سال وزیر اعظم اس درگاہ کے لیے چادر بھیجتے ہیں۔ اس تقریب کا مقصد ملک میں امن کا پیغام دینا ہے، جو کہ ہمارے معاشرتی ہم آہنگی کی علامت ہے۔
اجمیر میں ہر سال یہ عرس ایک خاص اہمیت رکھتا ہے، جہاں نہ صرف مسلم کمیونٹی بلکہ دیگر مذہب کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔