آسارام کی ضمانت پر رہائی، عقیدت مندوں کا خوشی کا اظہار

آسارام کی جیل سے رہائی: ایک چنگاری کی طرح...

بہار کی مہا کمبھ میں سخت سردی کا اثر: 3 افراد کی موت، 3000 سے زائد بیمار

مہا کمبھ 2025: ایک روحانی میلے کی مشکلیں مہا کمبھ...

کیجریوال کی خاموشی: ریزرویشن اور ذات پر مبنی مردم شماری پر سوالات اٹھ گئے

کانگریس کی کیجریوال پر تنقید: ریزرویشن کا معاملہ اور...

بھوپال گیس سانحہ: 40 سال بعد زہریلے فضلے کی منتقلی کا سنگ میل

بھوپال گیس سانحے کے بعد اب تک کے سب سے بڑے اقدامات میں سے ایک

بھوپال، بھارت میں ایک تاریخی لمحے کی حیثیت سے جانا جانے والا یہ واقعہ، 1 جنوری 2025 کی رات کو پیش آیا جب یونین کاربائیڈ فیکٹری سے تقریباً 377 ٹن زہریلا فضلہ محفوظ ٹھکانے کے لئے منتقل کیا گیا۔ یہ اقدام اس بات کا عکاس ہے کہ اس سانحہ کے بعد 40 سال گزرنے کے باوجود، متعلقہ حکام نے اس سنگین مسئلے کے حل کی جانب ایک مؤثر قدم اٹھایا ہے۔

یہ فضلہ 250 کلومیٹر دور دھار ضلع کے پیتھام پور صنعتی علاقے میں بھیجا جا رہا ہے۔ اس عمل کو مکمل کرنے میں ایک گرین کوریڈور بنایا گیا ہے تاکہ فضلہ لے جانے والے ٹرک بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی منزل تک پہنچ سکیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب مقامی آبادی کے لئے زہریلے فضلے کے اثرات کو کم کرنے کی امید کی جا سکتی ہے۔

بھوپال گیس سانحہ کا پس منظر اور حالیہ صورتحال

بھوپال میں 2-3 دسمبر 1984 کی رات، یونین کاربائیڈ فیکٹری میں زہریلی میتھائل آئیزو سیانائیٹ (ایم آئی سی) گیس کا لیکیج ہوا، جس کے نتیجے میں تقریباً 5479 افراد ہلاک ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے۔ یہ واقعہ عالمی تاریخ کے سب سے بڑے صنعتی حادثات میں شمار کیا جاتا ہے۔

اس سانحے کے بعد سے بھوپال میں متعدد اقدامات کیے گئے، تاہم زہریلے فضلے کا نپٹانا ایک طویل اور پیچیدہ عمل بن گیا تھا۔ حالیہ دنوں میں مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے حکام کی ناقص کارکردگی پر سخت تنقید کی، اور زہریلے فضلے کی منتقلی کے لئے چار ہفتوں کی مہلت دی۔

بھوپال گیس سانحے کے موجودہ حالات میں کیا ہو رہا ہے؟

سواتنتر کمار سنگھ، جو کہ امداد اور بحالی کے محکمے کے ڈائریکٹر ہیں، نے اس عمل کے بارے میں مزید معلومات فراہم کیں۔ انہوں نے بتایا کہ فضلہ لے جانے والے ٹرک تقریباً نو بجے روانہ ہوئے اور انہیں 7 گھنٹے میں پیتھام پور پہنچنے کی امید ہے۔ اس منتقلی کے عمل میں تقریباً 100 افراد شامل تھے، جنہوں نے 30 منٹ کی شفٹوں میں فضلے کو پیک کیا اور ٹرکوں میں لوڈ کیا۔

یہ عمل اس بات کو یقینی بنانے کے لئے انتہائی محتاط انداز میں کیا گیا کہ تمام تر حفاظتی اقدامات اختیار کئے جائیں۔ صحت کی جانچ بھی کی گئی اور عملے کو ہر 30 منٹ میں آرام دیا گیا۔

زہریلے فضلے کا نپٹانا: یہ کیسے ہو گا؟

سواتنتر کمار سنگھ نے وضاحت کی کہ ابتدائی طور پر کچھ فضلے کو پیتھام پور کی فضلہ نپٹانے کی تنصیب میں جلا دیا جائے گا۔ بعد میں باقیات کی جانچ کی جائے گی تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ کیا کوئی نقصان دہ مواد باقی رہ گیا ہے یا نہیں۔ یہ عمل مرکزی اور ریاستی آلودگی کنٹرول بورڈ کے افسران کی نگرانی میں کیا جائے گا۔

مقامی کارکنوں کی جانب سے 2015 میں کیے گئے تجربات کے بعد آلودگی کے الزامات بھی لگائے گئے تھے، تاہم سواتنتر کمار سنگھ نے ان دعووں کی تردید کی اور کہا کہ یہ فیصلہ مکمل جانچ کے بعد کیا گیا ہے۔

آنے والا وقت اور زیادہ چیلنجز

اس عمل کے خلاف 29 دسمبر کو پیتھام پور میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے تھے۔ مقامی لوگوں نے یہ مطالبہ کیا کہ انھیں اس عمل کے دوران حفاظتی تدابیر کے بارے میں مزید معلومات فراہم کی جائیں۔ سواتنتر کمار سنگھ نے یقین دہانی کرائی کہ اس عمل میں کوئی حفاظتی خطرہ نہیں ہے اور عوام کو اس عمل کے بارے میں آگاہ کیا جائے گا۔

زہریلے فضلے کی منتقلی کا یہ عمل صرف بھوپال کے لوگوں کے لئے نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حکام نے اپنی غلطیوں سے سیکھا ہے اور وہ محفوظ ماحول کی تعمیر کی کوشش کر رہے ہیں۔

حکومتی اقدامات اور عوام کی شمولیت

حکومت کی جانب سے اس اہم عمل کو پورا کرنے کے لئے عوامی شمولیت کی بھی ضرورت ہے۔ حکومتی ادارے اور مقامی لوگ ایک ساتھ مل کر ہی اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ عوام کو چاہئے کہ وہ حکام کے ساتھ تعاون کریں اور ہر طرح کی معلومات کا تبادلہ کریں تاکہ زہریلے فضلے کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔

یہ نہ صرف بھوپال کے لوگوں کی صحت کے لئے اہم ہے بلکہ یہ ان کے ماحول کی بہتری کے لئے بھی ضروری ہے۔

اس واقعے کے بعد ہم امید کرتے ہیں کہ حکام اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں گے اور ان اقدامات کی بنیاد پر مزید ترقی کے لئے کام کریں گے۔