دہلی میں مذہبی مقامات کی توڑ پھوڑ کی تیاری: وزیر اعلیٰ آتشی کے الزامات

مرکزی حکومت کی جانب سے مندروں کی توڑ پھوڑ کی منصوبہ بندی

نئی دہلی: دہلی کی وزیر اعلیٰ آتشی نے حالیہ الزامات میں کہا ہے کہ مرکزی حکومت قومی راجدھانی دہلی کے مختلف علاقوں میں مندروں اور بدھ مذہب کی عبادت گاہوں کو توڑنے کی تیاری کر رہی ہے۔ آتشی نے انکشاف کیا کہ دہلی میں ایک مذہبی کمیٹی قائم کی گئی تھی جو مندروں کی منتقلی یا ان میں توڑ پھوڑ کے معاملات پر فیصلہ کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ کمیٹی سپریم کورٹ کے حکم کے تحت تشکیل دی گئی تھی اور دہلی حکومت کے محکمہ داخلہ کے تحت کام کر رہی تھی۔

کمیٹی کے فیصلوں کا عمل دہلی کے وزیر داخلہ کے پاس جاتا تھا، جہاں ان کی منظوری کے بعد عمل درآمد کیا جاتا تھا۔ تاہم، آتشی کے مطابق، پچھلے سال دہلی کے ایل جی نے یہ حکم جاری کیا کہ مندروں میں توڑ پھوڑ کا معاملہ انتظامی امور سے متعلق ہے اور یہ مرکز کے اختیار میں آتا ہے۔

کمیٹی کی میٹنگ اور متوقع توڑ پھوڑ

22 نومبر کو ہونے والی کمیٹی کی میٹنگ میں کئی مندروں کو گرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جن میں ویسٹ پٹیل نگر، گوکل پوری، سیمابوری، نیو عثمان پور، اور سلطان پوری کے امبیڈکر پارک میں ہنومان کی مورتی اور سندر نگری میں بدھ مذہب کا ایک مذہبی مقام شامل ہیں۔ آتشی نے مزید کہا کہ ان فیصلوں کے بعد فائل مرکزی حکومت کے نمائندے ایل جی کے پاس بھیجی گئی، جنہوں نے اس کی منظوری دے دی۔

تمام متعلقہ اداروں جیسے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس، سب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس، ایم سی ڈی اور پولیس کو بھی اس حوالے سے ہدایات دی جا چکی ہیں اور وہ تمام ادارے انہدام کی تیاری کر رہے ہیں۔ مظاہرین کے ممکنہ احتجاج کے بارے میں تشویش نے اس مسئلے کی شدت کو بڑھا دیا ہے۔

پچھلے واقعات کا ذکر

اگست 2022 میں بھی مرکزی حکومت کے حکم پر ونود نگر میں ایک شنی مندر کے حصے کو منہدم کیا گیا تھا، جس پر عوامی سطح پر شدید غم و غصہ پیدا ہوا۔ آتشی نے اس واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عوامی رد عمل نے حکومت کو سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ وہ اس بار کس طرح کی حکمت عملی اختیار کرے گی۔

دہلی حکومت کے موقف

دہلی حکومت کے مطابق، یہ اقدام مذہبی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ آتشی نے کہا کہ مرکزی حکومت مذہبی مقامات کی توڑ پھوڑ کے ذریعے مذہبی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے، جو کہ ایک جمہوری ملک میں ناقابل قبول ہے۔

عوامی ردعمل اور امکان

اس معاملے پر عوامی ردعمل بھی سرگرم ہے، جس میں مختلف مذہبی جماعتیں، سماجی تنظیمیں اور عام لوگ شامل ہیں۔ اگر یہ اقدامات جاری رہے تو دہلی میں مذہبی ہم آہنگی متاثر ہو سکتی ہے، جس کا بڑا اثر عوامی زندگی پر پڑ سکتا ہے۔

نئے اقدامات کی ضرورت

اس معاملے میں دہلی حکومت کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کو اس طرح کے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے اور مذہبی مقامات کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے۔ آتشی نے مطالبہ کیا کہ مرکزی حکومت کو ان مقامات کی حالت زار کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے اور عوامی رائے کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔

اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ دہلی میں موجود یہ مذہبی مقامات محض عبادت کے مقامات نہیں بلکہ ثقافتی ورثے کا بھی حصہ ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ ان مقامات کی حفاظت کے حوالے سے بہتر پالیسی تیار کرے۔