بَہارعرب: عالم عرب اب تبدیلی کی جانب رواں دواں

کچھ عرب ملکوں میں 2010ء میں ’جمہوریت اور آزادی‘ کے نام پر شروع ہوئی ناکام ’بَہارِ عرب‘ کی خونچکاں داستان کا باب بند ہونے کو ہے

ایک دہائی سے زیادہ عرصہ کے بعد عرب دنیا ایک بار پھر تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ خطہ کے دو سخت حریفوں سعودی عرب اور ایران کے درمیان رشتے استوار ہو چکے ہیں۔ سفارتی تعلقات میں مزید بہتری آ رہی ہے۔ سربراہان کی آمد و رفت اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان شام کے صدر بشار الاسد کا استقبال کر رہے ہیں۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی سعودی عرب کے شاہ سلمان کو تہران آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ مصر کے وزیر خارجہ دمشق کا دورہ کر رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے سربراہان فون پر گفتگو کر رہے ہیں۔ترکی اور مصر کے درمیان جمی برف پگھل رہی ہے۔یمن اور شام میں جنگ بندی کے خاتمے اور بحالی امن کی کوششوں کو عملیجامہ پہنایا جا رہا ہے۔ لہذا کہا جا سکتا ہے کہ ’بہار عرب‘ کا خواب اب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آ رہا ہے۔


یوں تو 2010 کے اواخر میں مختلف عرب ملکوں میں بے روزگاری، رشوت ستانی، بدعنوانی، جابرانہ اور استحصالی نظام حکومت کے خلاف شروع ہوئے عوامی احتجاج کو ’بہار عرب‘ کا نام دیا گیا تھا۔ مگر اس کی ناکامی نے کئی ملکوں کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا، کئی ملکوں میں بَہار کے نام پر خونچکاں داستان لکھی گئی۔ اس داستان میں کئی حکمرانوں کے اقتدار کا خاتمہ اور کئی کی زندگی کا خاتمہ درج ہو گیا۔ لاکھوں بزرگوں، بچوں، نوجوانوں اور عورتوں کے خون سے لکھی گئی اس داستان میں کئی ممالک کی تباہی کے مناظر اور نشانات مل جائیں گے۔ اپنے گھر بار چھوڑ کر در در بھٹکتے کروڑوں لوگوں کی کہانیاں مل جائیں گی۔ یہ سب پچھلے دس بارہ سال میں ہوا ہے۔ تیونس، مصر، لیبیا، اردن، شام، الجزائر، لبنان، عراق اور بعض دوسرے ممالک اس کے گواہ ہیں۔

2010 کے اواخر میں ایک معمولی واقعہ نے ’بہار عرب‘ کی بنیاد ڈالی۔ 2010 سے 2012 تک عرب دنیا میں احتجاج، مظاہروں، جلسے اور جلوسوں کی ایسی سونامی آئی کہ اس نے دیکھتے ہی دیکھتے تقریباً پوری عرب دنیا کو اپنی زد میں لے لیا۔ کہیں در پردہ اور کہیں براہ راست تبدیلی کی اس لہر کو ’بَہارِعرب‘ کا نام دیا گیا۔

واقعہ یہ ہے کہ بحیرہ روم کے کنارے پر واقع خوبصورت ملک تیونس کا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان محمد بو عزیزی تمام کوششوں کے باوجود سرکاری ملازمت حاصل نہیں کر سکا۔ حالات کی مجبوری نے اسے سبزی فروش بنا دیا۔ ایک پولیس افسر نے اس نوجوان کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ بو عزیزی نے سرعام اپنی بےعزتی سے دل برداشتہ ہو کر خود سوزی کر لی۔ اس کے جسم سے نکلنے والی آگ کی لپٹوں نے بہت جلد پورے مشرق وسطیٰ کو جھلسا کر رکھ دیا۔ تیونس کے مختلف شہروں میں عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔

تین دہائیوں سے اقتدار پر قابض علی زین العابدین کی حکومت عوام کی طاقت کے سامنے ڈھیر ہو گئی۔ صدر زین العابدین کو فرار ہو کر سعودی عرب میں پناہ لینی پڑی۔ حالات کو دیکھتے ہوئے کچھ عرصہ کے بعد الجزائر، اردن اور عمان کی حکومتوں نے اعلان کیا کہ وہ بھی اپنے یہاں اصلاحات کرنے جا رہی ہیں، بلکہ اگر ضرورت پڑی تو حکومتیں بھی تبدیل ہو سکتی ہیں۔

اس کے ساتھ ہی مصر کی حسنی مبارک حکومت کے خلاف اسی نوعیت کی تحریک شروع ہو گئی۔ بالآخر ۱۱؍فروری۲۰۱۱ء کو تین دہائیوں پر محیط حسنی مبارک کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا گیا۔ اسی سال۲۰؍ اکتوبر کو تین دہائی سے زائد عرصہ تک حکمرانی کرنے والے لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی کوانہی کے عوام نے قتل کر دیا۔ فروری ۲۰۱۲ء میں یمن کے صدر علی عبداللہ صالح کو بھی دو دہائی سے زیادہ عرصہ کے بعد ایوان اقتدار سے رخصت ہونا پڑا۔انہیں ۴؍ دسمبر ۲۰۱۷ء کو قتل کر دیا گیا۔اس طرح ایک سے دو برس کے اندر چار اہم عرب ملکوں کے طاقتور حکمرانوں کی حکمرانی قصہ پارینہ بن گئی۔


آج ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد اگر ہم بہار عرب کے نتائج پر نظر ڈالیں تو پورے خطہ عرب کے لئے یہ خزاں ثابت ہوئی۔ تیونس سے لے کر لیبیا تک اور مصر سے لے کر یمن تک آمریت، جمہوریت، بدعنوانی، بے روزگاری اور آزادی کے نام پر شروع ہونے والی اس تحریک نے ناکامی کی ایک لمبی داستان لکھ دی ہے۔ لیبیا اور یمن بدترین خانہ جنگی کے سبب تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔

مصر میں ڈاکٹر محمد مرسی کی جمہوری حکومت کے خاتمہ کے بعد عبدالفتاح السیسی سابقہ حکمرانوں کی طرح مضبوطی سے مسند اقتدار پر قابض ہیں۔ شام میں حکومت مخالف احتجاج خونریز خانہ جنگی اور پھر دنیا بھر کی طاقتوں کی پنجہ آزمائی کے سبب کھنڈہر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ’بہار عرب ‘ کی ناکامی کی سب سے بڑی قیمت شام کے باشندوں نے ہی ادا کی ہے۔

غرض یہ کہ جن ملکوں میں ’بہار عرب‘ کے نام پر احتجاجی مظاہرے ہوئے، وہاں جمہوریت تو پروان نہیں چڑھ سکی، بلکہ انتشار اور افراتفری کا ماحول یہاں کے باشندوں کا مقدر بن گیا۔ اب جبکہ حالات ایک بار پھر کروٹ لے رہے ہیں اور ایک مثبت تبدیلی نظر آ رہی ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ بہار عرب کی ناکامی کی داستان ماضی کا حصہ بن جائے گی اور پوری دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم کی جائے گی۔

حال ہی میں ایک بڑی پیش رفت عرب لیگ کے سربراہی اجلاس کی شکل میں ہوئی ہے۔ خطہ کی دو بڑی طاقتوں ایران اور سعودی عرب نے یقیناً حالات کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے جدہ میں عرب لیگ کے سربراہ اجلاس کے افتتاحی کلمات میں دیگر عرب رہنماؤں کے ساتھ جب شامی صدر بشار الاسد کا خیرمقدم کیا تو یہ عرب میں ایک نئی بہار کا پیش خیمہ تھا۔ حالانکہ عرب لیگ میں شام کی واپسی پر سعودی قیادت کو کچھ حلقوں کی جانب سے تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے، مگر ان لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ جب حالات ایک مثبت تبدیلی کی طرف کروٹ لے رہے ہیں تو اس کا خیر مقدم ہونا چاہئے۔ اگرچہ ماضی میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی قیادت میں اقدامات کئے جاتے تھے اور امریکی مفادات سب پر حاوی رہتے تھے۔ لیکن عرب لیگ کا حالیہ سربراہی اجلاس باہری اور دیگر عالمی طاقتوں کے مفادات سے پاک نظر آیا اور اس عرب طاقتوں نے اتحاد کی طرف ایک اور قدم بڑھایا۔

سعودی عرب نے گزشتہ دس ماہ میں تین بڑے سربراہی اجلاسوں کی میزبانی کی ہے۔ پہلےجدہ میں سلامتی اور ترقی سربراہی اجلاس منعقد ہوا تھا۔ اس میں خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے چھ رکن ممالک کے علاوہ مصر، اردن اور عراق اور امریکی صدر جو بائیڈن نے شرکت کی تھی۔ دوسرا ریاض میں چینی صدر شی جِن پنگ کے عرب لیڈروں کے ساتھ سربراہی اجلاس کے دو دور ہوئے تھے۔ پہلے ان کا خلیجی ممالک کے ساتھ ایک دور ہوا تھا اور پھر عرب ممالک کے ساتھ سربراہی اجلاس کا دوسرا دور ہوا تھا۔ اور اب تیسرا، جدہ میں عرب لیگ کا حالیہ سربراہی اجلاس ہے۔

حالیہ برسوں میں یہ اجلاس اپنی نوعیت کا اہم اجلاس تھا۔ اسی لئے یہاں کافی گرمجوشی نظر آئی اور سرخیوں میں بھی رہا۔ عرب لیگ میں شام کی واپسی، اسرائیل کے مقابلے میں فلسطین کی حمایت اور صہیونی حکومت کے حالیہ مظالم کی مذمت مقررین کی گفتگو کا مرکزی محور رہا۔ عرب لیگ کے 32؍ ویں سربراہی اجلاس میں شرکاء کا خیر مقدم کرتے ہوئے سعودی ولی عہد نے کہا کہ شامی صدر کی شرکت شام کیلئے امن اور استحکام کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔

وہیں شام کے صدر بشار الاسد نے کہا کہ ہمیں مستقبل میں درپیش چیلنجز کے بارے میں ابھی سے ہی غور کرنا چاہئے، تاکہ مستقبل کی نسلوں کو کوئی خطرہ پیش نہ آئے۔ ہم بیرونی مداخلت کے بغیر باہمی گفتگو و شنید کے ذریعے اتفاق رائے پیدا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ ان دونوں سربراہان کا یہ بیان عرب لیگ اجلاس کا حاصل کہا جا سکتا ہے۔ یقیناً اگر عرب حکمراں باہری مداخلت اور بیرونی طاقتوں کے حصار سے خود کو آزاد کر لیتے ہیں تو یہ ان کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔


(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں)
yameen@inquilab.com