پاکستان میں چار ماہ پہلے اغوا ہوئے مشہور صحافی اور اینکر عمران ریاض خان پیر کے روز اپنے اہل خانہ کے پاس گھر لوٹ آئے۔ وہ ملک کے فوجی ادارے کے خلاف اپنی بے باک رپورٹنگ اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی کھلی حمایت کے لیے مشہور تھے۔ ان کی بہ حفاظت واپسی کی تصدیق سیالکوٹ پولیس نے کی ہے۔ پولیس نے کہا کہ صحافی/اینکر عمران ریاض خان کو بہ حفاظت برآمد کر لیا گیا ہے۔ وہ اب اپنے کنبہ کے ساتھ ہیں۔
عمران ریاض خان کے وکیل نے بھی ان کے کنبہ کے پاس بہ حفاظت واپسی کی خبر کی تصدیق کی ہے۔ وکیل اشفاق نے کہا کہ خدا کے کرم سے میں اپنے راج کمار کو واپس لے آیا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ ’’کمزور عدلیہ اور آئین کی موجودہ حالت کے ساتھ ساتھ قانونی لاچاری سمیت کئی مشکلات کا سامنا کرنے کے سبب اس میں کافی وقت لگا۔‘‘
عمران ریاض خان کی واپسی سے ان کے کنبہ اور پاکستان کے صحافی طبقہ نے راحت کی سانس لی، جو مہینوں سے ان کے جبراً اور غیر قانونی اغوا کا ایشو اٹھا رہے تھے۔ 11 مئی کو ان کے خلاف درج ایک معاملے میں رِہا ہونے کے بعد عمران ریاض خان کا 15 مئی کو نامعلوم لوگوں نے اغوا کر لیا تھا۔ تب سے ان کا ٹھکانہ نامعلوم رہا۔ انھیں کسی بھی عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا، نہ ہی کسی اتھارٹی کے ذریعہ کوئی الزام طے کیا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ میں ایک معاملہ درج کیا گیا تھا جس میں عمران ریاض خان کے ٹھکانے کی تفصیل مانگی گئی، جس میں عدالت سے مین اسٹریم کے صحافی کی برآمدگی یقینی کرنے کی گزارش کی گئی تھی۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی عمران ریاض خان کی حمایت اپنے سوشل میڈیا بلاگس اور ٹیلی ویژن پروگراموں کے ذریعہ کی۔
اپریل 2022 میں عمران خان کے اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد عمران ریاض سابق وزیر اعظم کے سرفہرست حامیوں میں سے تھے، جنھوں نے اپنے اپوزیشن سیاسی اتحادی پارٹیوں کو غدار، لٹیرا اور بدعنوان کہا تھا۔ عمران ریاض خان فوجی ادارے کے بارے میں بھی بہت بے باک تھے۔ وہ ملک کے میڈیا اہلکاروں اور صحافیوں کے بارے میں بھی بے خوف تھے۔ انھوں نے انھیں بدعنوان بتایا اور انھیں معزول وزیر اعظم کے خلاف غداروں کی کہانی کے ساتھ جوڑ دیا۔
اینکر منیب فاروق نے کہا کہ ’’عمران ریاض خان کی واپسی ایک راحت ہے۔ پاکستان میں طاقتور گروپوں (خفیہ ایجنسیوں) کے ہاتھوں صحافیوں کے اغوا، حملے، ظلم اور ہیاں تک کہ قتل کی تاریخ رہی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پاکستان کو صحافیوں کے لیے دنیا کے سب سے خطرناک ممالک میں سے ایک مانا جاتا ہے جہاں پریس کی آزادی اور اظہارِ رائے کی آزادی پر لگاتار ظلم کیا جاتا ہے۔ صحافیوں پر حملے، مظالم، اغوا اور یہاں تک کہ قتل کے واقعات بھی انجام دیے گئے ہیں۔