رام پور: محمد علی جوہر ٹرسٹ کو لے کر انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے تین دن تک جاری رہنے والے چھاپے نے سماج وادی پارٹی کے لیڈر اور ریاست کے سابق وزیر اعظم خان کو بری طرح توڑ کر رکھ دیا ہے۔ صورتحال اس قدر سنگین ہے کہ اعظم خان اپنے اہل خانہ اور صحافیوں کے سامنے زار و قطار رو پڑے۔ مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی سے وابستہ ٹرسٹ کے ارکان سمیت اعظم خان کے قریبی رشتہ داروں کے یہاں تین دن تک جاری رہنے والے اس چھاپے میں مبینہ طور پر 2 کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم برآمد ہوئی، جبکہ ان پر 800 کروڑ روپے کی ٹیکس چوری کا الزام بھی عائد کر دیا گیا۔ جیل سے باہر آنے کے بعد اعظم خان کے لیے یہ ایک مشکل وقت نظر آتا ہے۔
جنتا پارٹی سیکولر کے ٹکٹ پر 1980 میں رام پور سے ایم ایل اے منتخب ہو کر پہلی بار اسمبلی میں پہنچنے والے اعظم خان اس سے زیادہ مشکل دور میں کبھی نہیں گزرے۔ وہ اتر پردیش حکومت میں چار بار وزیر، 9 بار ایم ایل اے اور راجیہ سبھا کے رکن بھی بنے لیکن 2019 میں رام پور سے ایم پی بننے کے بعد انہیں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اعظم خان نے مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) سے ایل ایل بی کرنے کے بعد زمانہ طالب علمی سے سیاست کا آغاز کیا۔ وہ ایم ایم یو میں اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سکریٹری بنے، جس کے بعد وہ 1976 میں جنتا پارٹی میں شامل ہوئے اور 1977 میں رام پور سے اسمبلی الیکشن لڑا لیکن ہار گئے۔
چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے رام پور کی سیاست پر یکطرفہ طور پر غلبہ حاصل کرنے والے اعظم خان کے لیے یہ پہلا موقع ہے جب ان کے خاندان کا کوئی فرد ایوان کا رکن نہیں ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب انہیں سپر سی ایم کہا جاتا تھا لیکن آج وہ کسی ایوان کے رکن تک نہیں ہیں اور اب ان سے ان کا خواب جوہر یونیورسٹی بھی چھینی جا سکتی ہے۔
خیال رہے کہ ایس پی کے قومی جنرل سکریٹری اعظم خان نفرت انگیز تقریر کیس میں تین سال سے زیادہ کی سزا سنائے جانے کے بعد رکن اسمبلی کا عہدہ کھو چکے ہیں، جس کے بعد گزشتہ سال دسمبر میں ضمنی انتخاب کرایا گیا تھا۔ انہیں اب تک رام پور کورٹ نے دو معاملوں میں مجرم قرار دیا ہے لیکن ایک کیس میں سیشن کورٹ نے انہیں بری کر دیا۔ یوپی حکومت اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ پہنچ گئی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں چھجلیٹ معاملہ میں مرادآباد کی عدالت نے بھی مجرم قرار دیا ہے اور دو سال کی سزا سنائی ہے۔ فی الحال کئی مقدمات کی سماعت آخری مراحل میں ہے۔ ان کے بیٹے عبداللہ اعظم کی اسمبلی کی رکنیت بھی دو بار منسوخ کی جا چکی ہے۔
انکم ٹیکس کی تازہ چھاپہ ماری کے بعد اعظم خان کو اپنا جوہر یونیورسٹی کا خواب بکھرتا ہوا محسوس ہوا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی ڈیری کی بھینسوں کا دودھ بیچ کر گزارا کر رہے ہیں اور ان پر جو ظلم کیا جا رہا ہے وہ اب حد سے پار ہو چکا ہے۔ ان کی ہمت ٹوٹ رہی ہے اور صبر جواب دے رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد غریبوں، کمزوروں اور اقلیتی برادری کے بچوں کو تعلیم فراہم کرنا تھا لیکن کوئی چاہتا ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے قابل نہ رہے۔
خیال رہے کہ ایس پی لیڈر اعظم خان کے گھر پر آئی ٹی کا چھاپہ 60 گھنٹے تک جاری رہا۔ اس دوران ان کے گھر، جوہر یونیورسٹی، ہمسفر ریزورٹ، ایس پی ایم ایل اے نصیر خان کے گھر اور فارم ہاؤس، ادیب اعظم کے شو روم، ڈی سی بی کے سابق چیئرمین سلیم قاسم اور ان کے کئی قریبی رشتہ داروں سے پوچھ گچھ کی گئی۔ صرف اتنا ہی نہیں سہارنپور میں ان کے قریبی سی اے کے کاغذات کی بھی تلاشی لی گئی۔ بتایا جا رہا ہے کہ جب یہ آئی ٹی ٹیم واپس گئی تو 25 بیگ اپنے ساتھ لے گئی۔ کہا جاتا ہے کہ ان تمام تھیلوں میں دستاویزات ہیں جن میں 15 سال پرانے کنٹریکٹ پیپرز شامل ہیں۔
چھاپے کے بعد اعظم خان نے کہا ہے کہ دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ 60 گھنٹوں میں کوئی ایسی چیز نہیں ملی جسے ضبط کیا جا سکے۔ مجھ سے ساڑھے تین ہزار روپے برآمد ہوئے، عبداللہ کے پاس 10 اور میری بیوی سے سوا تولہ کی انگوٹھی برآمد ہوئی ہے۔ میں نے یونیورسٹی کو کمزور طبقے کے لیے بنایا تھا، کیا اسے تعلیم کا مندر نہیں کہا جاتا؟