انڈیا اتحاد کی طرف سے ’نفرتی اینکرس‘ کا بائیکاٹ کیوں تھا ضروری!

بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی ماضی میں کس طرح کرن تھاپر اور رویش کمار جیسے صحافیوں کا بائیکاٹ کر چکے ہیں، اسے یاد دلاتے ہوئے اپوزیشن اتحاد کے ایک لیڈر نے دعویٰ کیا کہ مختلف نیوز چینلز کے 14 اینکرس کے پروگرام کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ بھاری دل سے لینا پڑا ہے۔ انھوں نے یاد دلایا کہ کیسے موجودہ حکومت نے پرنئے رائے کی ملکیت میں این ڈی ٹی وی اور نیوز ویب سائٹس ’نیوز کلک‘ و ’دی کوئنٹ‘ کو کس طرح پریشان کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ویسے نیوز اینکرس کا بائیکاٹ نہ تو نیا ہے اور نہ ہی انوکھا۔ لیکن جب پانی سر سے اوپر ہو گیا تو یہ قدم اٹھانا پڑا ہے۔

اسی فیصلے کے ساتھ اینکرس کی فہرست کو کانگریس کے میڈیا اینڈ پبلسٹی ڈپارٹمنٹ کے چیف پون کھیڑا نے شیئر کیا۔ جن اینکرس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا ہے، ان کی فہرست اس طرح ہے:

ادیتی تیاگی – بھارت ایکسپریس

امن چوپڑا – نیوز 18 انڈیا

امیش دیوگن – نیوز 18 انڈیا

آنند نرسمہن – سی این این-نیوز 18

ارنب گوسوامی – ریپبلک

اشوک شریواستو – دوردرشن نیوز

چترا ترپاٹھی – آج تک

گورو ساونت – انڈیا ٹوڈے ٹی وی

نویکا کمار – ٹائمز ناؤ

پراچی پراشر – انڈیا ٹی وی

روبیکا لیاقت – بھارت 24

شیو ارور – انڈیا ٹوڈے ٹی وی

سدھیر چودھری – آج تک

سوشانت سنہا – ٹائمز ناؤ نوبھارت

اسی فیصلے کو لے کر پون کھیڑا نے سوشل میڈیا پر ایک چھوٹی سی ویڈیو بھی شیئر کی۔ انھوں نے اس میں کہا ہے کہ ’’روزانہ شام 5 بجے سے کچھ چینلز پر نفرت کا ایک بازار سجایا جاتا ہے۔ گزشتہ 9 سال سے یہ لگاتار چل رہا ہے۔ اس بازار میں الگ الگ پارٹیوں کے لیڈران جاتے ہیں، کچھ ماہرین جاتے ہیں، کچھ تجزیہ نگار جاتے ہیں، لیکن ہم سب نفرت کے اس بازار میں گاہک بن کر جاتے ہیں۔ ہمیں نفرت سے پاک ہندوستان کی سمت میں ایک قدم اٹھانا تھا۔ آج ایک فیصلہ لیا گیا، کچھ اینکرس کو نشان زد کیا جائے، ان کے شوز میں، ایوینٹس میں ہم لوگ نہ جائیں، جس سے ایک مضبوط قدم اٹھایا جائے۔ ہم اس نفرت کے بازار کے شراکت دار نہیں بننا چاہتے جو ہمارے سماج کو آلودہ کر رہا ہے۔ ہمارے لیڈروں کے خلاف نازیبا تبصرے، فیک نیوز وغیرہ سے ہم لڑتے آئے ہیں اور لڑتے رہیں گے، لیکن سماج میں نفرت نہیں پھیلنے دیں گے۔ بڑے بھاری من سے یہ فیصلہ لیا گیا ہے۔ ہم ان میں سے کسی سے بھی نفرت نہیں کرتے، ہمیں ہندوستان سے محبت ہے، اسی لیے نفرت کی دکان کو بند کرنے کا فیصلہ لیا۔‘‘ پون کھیڑا نے اپنی ویڈیو میں یہ امید ظاہر کی ہے کہ یہ اینکرس خود ہی اپنے آپ کو بدلیں گے اور وقت بھی بدلے گا۔ انھوں نے ایک طرح سے اشارہ دیا کہ وقت آنے پر اس فہرست کا تجزیہ کر اس میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔

انڈیا اتحاد کے ایک لیڈر نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بالآخر ہمیں ایسے اینکرس کی فہرست بنانی پڑی جو نفرت پھیلانے ہیں، فرضی خبریں دکھاتے ہیں اور سماج میں فرقہ پرستی کا وائرس پھیلاتے ہیں۔ ویسے اینکرس کی کارگزاریوں سے عوام بھی واقف ہے۔

بہرحال، جیسی کہ امید تھی، بی جے پی نے انڈیا اتحاد کے فیصلے کی شدید مذمت کی ہے۔ بی جے پی صدر جے پی نڈا نے تو پورے اپوزیشن اور خاص طور سے کانگریس پر حملہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ میڈیا کو خاموش کرنے کی کوشش ہے۔ لیکن بی جے پی کے رد عمل پر فوراً ہی اپوزیشن نے بھی جواب دیا۔ اپوزیشن نے تمام ایسی مثالیں سامنے رکھ دیں جب ان اینکرس نے غیر ذمہ دارانہ رویہ دکھایا۔ اسی ضمن میں اسی ہفتہ کی ایک ویڈیو پوسٹ کی گئی جس میں ایک اینکر کہتی دکھائی دے رہی ہے کہ انھیں آج بھی اس بات پر شرم آتی ہے کہ کیسے سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن نے تب کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو وہائٹ ہاؤس میں انتظار کروایا تھا۔ لیکن وہ اینکر یہ بات بھول گئیں یا قصداً چھپا گئیں کہ اندرا گاندھی نے کس طرح نکسن اور امریکہ سے اس بات کا بدلہ لیا تھا اور تب امریکی حکومت کو ٹھینگا دکھا دیا تھا۔

اس کے علاوہ حال ہی کے ایک واقعہ بھی یاد دلائی گئی کہ کیسے این ڈی ٹی وی کے ممبئی بیورو چیف کو مبینہ طور پر اڈانی کی ملکیت والے چینل نے راہل گاندھی کی پریس کانفرنس میں گڑبڑی کرنے کو کہا تھا۔ اس حکم کو نہ مانتے ہوئے بیورو چیف سوہت مشرا نے استعفیٰ دے دیا تھا۔

ابھی دو دن پہلے ہی کانگریس سوشل میڈیا انچارج سپریا شرینیت نے ایک صحافی کے اس سوال کا جواب دیا تھا کہ وہ کن صحافیوں کو ’چرن چمبک‘ (قدم چومنے والا) کہتی ہیں۔ سپریا شرینیت نے جواب دیا تھا کہ جن صحافیوں میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ سچے سوال پوچھ سکیں، وہ ’چرن چمبک‘ ہیں، جبکہ بہت سے صحافی ہیں جو سچ کے ساتھ ہیں، اور وہ ان کا احترام کرتی ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ حالیہ کچھ سالوں میں نیوز اینکرس اور اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران یا ترجمان کے درمیان رشتوں میں کافی تلخی آئی ہے۔ اپوزیشن لگاتار اس بات کو اٹھاتا رہا ہے کہ نیوز چینل قصداً ایسے سبجیکٹ پر ڈیبیٹ (بحث) کرتے ہیں جو حکومت کی حمایت یا سرکاری پی آر پروفیشنل کے ذریعہ طے کیے گئے ہوتے ہیں۔ ان ڈیبیٹ میں ایسے لوگوں کو تجزیہ کار کے طور پر شامل کیا جاتا ہے جو دراصل حکومت کی حمایت کرتے ہیں اور اپوزیشن کی آواز کو دبانے کا کام کرتے ہیں۔

بہرحال، اپوزیشن کے فیصلے سے سینئر صحافی سہاسنی حیدر خوش نہیں ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ’’یہ افسوسناک ہے کہ اپوزیشن نیوز اینکرس کی گریڈنگ کرنے میں وقت ضائع کر رہا ہے۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ شفافیت اور میڈیا کی ان تک رسائی ہو جو اقتدار میں ہیں۔‘‘ حالانکہ فیکٹ چیکر اور آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے ایسے کچھ ڈیبیٹ کے اسکرین شاٹ شیئر کر کے بتایا ہے کہ آخر ان اینکرس کا بائیکاٹ کرنا کیوں ضروری تھا۔

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے میڈیا مشیر رہے پنکج پچوری نے بھی اس معاملے میں اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ میڈیا کے لیے ایک افسوسناک دن ہے۔ یہ میڈیا مالکان کی ناکامی ہے جو اس کاروبار میں یہ جانتے ہوئے آئے تھے کہ بھروسہ ہی ان کی سب سے بڑی پونجی ہے۔ بھروسہ اصل مقاصد کا، یکساں موقع دینے کا اور اظہارِ رائے کی آزادی کا۔ لیکن یہ بھروسہ بری طرح ٹوٹ چکا ہے۔‘‘