سپریم کورٹ میں آج 152 سال قدیم ملک سے بغاوت کے قانون کو چیلنج دینے والی عرضی پر سماعت ہوئی۔ اس دوران عدالت عظمیٰ نے مرکز کو جھٹکا دیتے ہوئے معاملے کو بڑے آئینی بنچ کے پاس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت والی بنچ نے بڑی بنچ کو معاملہ سونپنے کا فیصلہ ٹالنے کے مرکزی حکومت کے مطالبہ کو مسترد کر دیا اور کہا کہ اس معاملے کی سماعت کم از کم پانچ ججوں کی آئینی بنچ کرے گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ نے تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے کے تحت آنے والے بغاوت قانون کی اہلیت کو چیلنج دینے والی عرضیوں کو کم از کم پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے پاس بھیج دیا ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت والی آئینی بنچ نے اس بنیاد پر بڑی بنچ کو معاملہ سونپنے کا فیصلہ ٹالنے کے مرکز کے مطالبہ کو ٹھکرا دیا کہ پارلیمنٹ تعزیرات کے التزامات کو پھر سے نافذ کر رہی ہے۔ جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا بھی اس بنچ میں شامل تھے۔
اس درمیان سپریم کورٹ نے اپنے رجسٹرڈ آفس کو چیف جسٹس کے سامنے کاغذات پیش کرنے کی ہدایت دی تاکہ بنچ کی تشکیل کے سلسلے میں فیصلہ لیا جا سکے۔ قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال 11 مئی کو سپریم کورٹ نے اس معاملے پر سماعت کرتے ہوئے تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے کو عبوری طور پر بے اثر بنا دیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ اس قانون کے تحت نئے مقدمات درج نہ ہوں اور جو مقدمات پہلے سے زیر التوا ہیں، ان میں بھی عدالتی کارروائی روک دی جائے۔ عدالت نے مرکزی حکومت کو قانون کا تجزیہ کرنے کی اجازت دی تھی۔ ساتھ ہی کہا تھا کہ جب تک حکومت قانون کا تجزیہ نہیں کر لیتی، تب تک یہ عبوری نظام نافذ رہے گا۔
بعد ازاں مرکزی حکومت نے رواں سال 11 اگست کو ان قوانین کو بدلنے کے لیے تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے آئی پی سی (انڈین پینل کوڈ- تعزیرات ہند)، سی آر پی سی (کریمنل پینل کوڈ) اور آئی ای اے (انڈین ایویڈنس ایکٹ) کی جگہ لینے کے لیے لوک سبھا میں تین نئے بل پیش کیے۔ اس میں بغاوت قانون کو رد کرنے اور جرم کی وسیع تعریف کے ساتھ نئے التزامات نافذ کرنے کی بات کی گئی ہے۔