افغانستان میں خواتین ملازمین پر پابندی کی اقوام متحدہ نے مذمت کی

قرارداد کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ افغان خواتین پر اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے پر پابندی انسانی حقوق اور انسانی اصولوں کی خلاف ورزی ہے

اقوام متحدہ: اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل افغانستان میں عالمی ادارے کے لیے کام کرنے والی افغان خواتین پر پابندی کی مذمت میں آج ایک قرارداد کی منظوری دے رہی ہے۔


اس میں طالبان انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواتین اورلڑکیوں کے حقوق کے خلاف تشدد کو فوری طور پر واپس لے۔


اس قرارداد کا مسودہ متحدہ عرب امارات اور جاپان نے تیارکیا ہے جس میں طالبان کی افغان خواتین پر پابندی کو اقوام متحدہ کی تاریخ میں بے مثال قراردیا گیا ہے اور افغان معاشرے میں خواتین کے ناگزیر کردار پر زوردیا گیا ہے۔


سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ توقع ہے کہ اسے منظور کرلیا جائے گا۔ پندرہ رکنی سلامتی کونسل میں کسی بھی قرارداد کے حق میں کم سے کم نو ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اور پانچ مستقل رکن ممالک روس، چین، امریکہ، برطانیہ یا فرانس کی جانب سے کوئی ویٹو نہیں ہونا چاہیے۔


قرارداد کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ افغان خواتین پر اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے پر پابندی انسانی حقوق اور انسانی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔


اس ماہ کے اوائل میں طالبان نے اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والی افغان خواتین پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس سے قبل دسمبر میں انسانی بنیادوں پر امدادی گروپوں کے لیے کام کرنے والی زیادہ تر خواتین کو روک دیا گیا تھا۔
طالبان نے اگست 2021 میں مغرب کی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹنے اور اقتدارمیں آنے کے بعد عوامی زندگی میں خواتین کی رسائی پر سخت پابندیاں عائد کی ہیں جن میں خواتین کو تعلیم کے لیے یونیورسٹی جانے سے روکنا اور لڑکیوں کے ہائی اسکول بند کرنا بھی شامل ہے۔


طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی قانون کی سخت تشریح کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں اور خواتین امدادی کارکنوں سے متعلق فیصلے اندرونی معاملہ ہیں۔


سلامتی کونسل کی قرارداد کے مسودے میں تمام فریقوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ صنف سے قطع نظرمکمل، تیز رفتار، محفوظ اور بلا روک ٹوک انسانی رسائی کی اجازت دیں اس کے علاوہ، افغانستان میں سنگین معاشی اور انسانی صورت حال سے نمٹنے کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔