سپریم کورٹ نے یہ تو محسوس کر لیا کہ نیوز چینل اور اینکرنفرت پھیلانے میں پیش پیش ہیں، اب انتظار اس بات کاہے کہ کب یہ پابند سلاسل ہوتے ہیں. نہ معلوم "خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد”
تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری۔۔۔۔
ہندوستان میں صحافت کی ایک روشن تاریخ رہی ہے۔ پہلی جنگ آزادی سے لے کر حصول آزادی تک اور آزادی کے بعد ملک کی تعمیر و ترقی تک میں ہندوستانی صحافت کا نمایاں رول رہا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ لیکن حالیہ کچھ برسوں میں جس طرح سماجی اقدار و روایات زوال پذیر ہوئی ہیں، اسی طرح صحافت نے بھی اپنے اصول و اقدار کو پامال کیا ہے۔ اس کا خمیازہ اس طبقے کو اٹھانا پڑ رہا ہے، جس کے لئے صحافت آنکھ، کان اور زبان کا کام کرتی ہے۔
آج میڈیا میں کمزور، محکوم اور مظلوم طبقہ کی آواز کو اٹھانے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ افسوس، ملک کی عدالت عظمیٰ کو ایک بار نہیں، کئی بار میڈیا بالخصوص نیوز چینلوں کو آئینہ دکھانے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ ملک کے مختلف حلقوں نے بھی بار بار نیوز چینلوں کی نفرت انگیزی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ راقم الحروف نے بھی اس موضوع پر متعدد مضامین قلم بند کئے ہیں۔ اس کے علاوہ آئے دن نفرت انگیز نیوز چینلوں اور ایک خاص ایجنڈے کے تحت کام کرنے والے نیوز اینکروں کے خلاف باقاعدہ مقدمے درج ہوئے، پولیس تھانوں میں شکایتیں درجج ہوئیں، مگر بے حس اور بے لگام نیوز اینکروں کی نفرت انگیزی ہنوز جاری ہے۔ صحافت کے بنیادی اصول اور اقدار سے تو جیسے ان کا کوئی واسطہ ہی نہیں۔
ان نیوز چینلوں کے ذریعہ کسی خاص ایجنڈے پر کام کرنے کے سبب صحافت کا وقار سب سے زیادہ مجروح ہوا ہے۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ ٹی آر پی کی بھوک میں ان چینلوں نے بے شرمی ،بے حیائی اور بے ایمانی کی سبھی سرحدوں کو عبور کر دیا ہے۔ آج دنیا میں ہندوستانی صحافت کو کیا مقام حاصل ہے، وہ ہر سال ہونے والی درجہ بندی سے ظاہر ہو جاتا ہے۔
نیوز چینلوں کو سیاسی پشت پناہی
پچھلے کچھ برسوں کے دوران ہم نے دیکھا ہے کہ مختلف عدالتوں نے نیوز چینلوں کے غیر ذمہ دارانہ رویہ پر کئی بار سختی کا مظاہرہ کیا ہے۔ عدالتوں نے کئی بار انتباہ بھی دیا ہے، لیکن نیوز چینلوں کی من مانی جاری ہے۔ ان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آنے سے ثابت ہوتا ہے کہ انہیں کہیں نہ کہیں سیاسی پشت پناہی حاصل ہے اور دوسرا یہ کہ مقتدر طبقے کی چاپلوسی کرنے کے سبب ان لوگوں کو اب عدلیہ کا خوف بھی نہیں رہا۔
وہیں دوسری طرف حالیہ کچھ برسوں کے دوران آزاد اور غیر جانبدار میڈیا ہاؤسز یا صحافیوں کو سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ دباؤ میں لانے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں الزام لگاتی ہیں کہ ملک میں غیر اعلانیہ سینسر شپ نافذ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے میڈیا کے اس طبقہ کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے اور منافرت کو ہوا دینے کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک کے ایک بڑے طبقے میں میڈیا کے حوالے سے شدید برہمی اور بے چینی پائی جا رہی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر روز شام ہوتے ہی نیوز چینلوں پر کیسے نفرت کا بازار سج جاتا ہے اور کھلے عام ہندو اور مسلمان کے نام پر مباحثے ہوتے ہیں۔
ایک ایجنسی کے سروے کے مطابق ٹی وی چینلوں پر شام پانچ بجے سے رات دس بجے تک ہونے والے مباحثوں میں 70؍ فیصد مذہبی معاملات، فرقہ وارانہ اور پاکستان کے داخلی معاملات پر بحثیں کی جاتی ہیں۔ اکثر نیوز چینلوں پر تو یہ غیر ضروری بحثیں روز کا معمول بن گئی ہیں۔ ان بحثوں کی حساسیت اور سنجیدگی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے اینکروں کی زبان کا معیار کیا ہوتا ہے اور ان کے ساتھ بیٹھنے والے پینلسٹ سماج کے کس طبقہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان چینلوں پر ملک کے اہم مسائل جیسے مہنگائی، بے روزگاری، صحت اور تعلیم وغیرہ پر شاذ و نادر ہی گفتگو نظر آتی ہے۔ اسی لئے آج ٹی وی چینلوں پر خبروں کی پیشکش اور ان کے پیش کرنے والوں کے کردار پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ صحافت کی بنیادی اقدار اور ذمہ داریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کے پلیٹ فارم پر جس طرح نفرت پر مبنی مباحثوں کا سیلاب آیا ہے وہ یقیناً پورے ملک اور سماج کے لئے تشویشناک کا باعث ہے۔
سپریم کورٹ کے سوالات کی بوچھار
سپریم کورٹ نے کچھ عرصہ پہلے سماج میں نفرت پھیلانے اور اشتعال انگیزی کرنے والے نیوز چینلوں کی سخت سرزنش کی تھی اور اب ان نیوز چینلوں کے بدزبان اینکروں کے خلاف سخت رخ اختیار کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس جوزف اور جسٹس ناگرتنا کی بنچ نے ٹی وی چینلوں کے بدزبان اور اشتعال انگیزی کرنے والے اینکروں کو آئینہ دکھایا ہے۔ جسٹس جوزف نے سماج میں نیوز چینلوں کی وجہ سے پھیلتی نفرت اور اشتعال انگیزی کے معاملے پر گزشتہ سال ستمبر میں سماعت کے دوران حکومت اور نیوز چینلوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ان پر سوالات کی بوچھار کردی تھی۔ اس مرتبہ نیوز چینلوں کے اینکروں کو کھری کھری سنائی۔
نیوز چینلوں کی نفرت انگیزی پر قدغن لگانے کے لئے جمعیۃ علما ہند اور کچھ دوسرے لوگوں نے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ سپریم کورٹ نے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے نیوز براڈ کاسٹنگ اسٹینڈرڈ اتھارٹی (این بی ایس ا ے) کے وکیل کو کٹہرے میں کھڑے کرتے ہوئے سخت سوال کئے۔ عدالت نے پوچھا کہ اب تک کتنے نیوز چینلوں کے کتنے اینکروں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے اور انہیں شو سے ہٹایا گیا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ملنے پر جسٹس جوزف سخت برہم ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ اتھارٹی کی جانب سے ہمیں یہ کہا جارہا ہے کہ اس نے گزشتہ 4؍ ماہ میں ایک بھی اینکر پر کارروائی نہیں کی ؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا اسے ایک بھی اینکر کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا؟ کیا ان کے پروگراموں میں آپ کو ایک لفظ بھی قابل اعتراض نظر نہیں آیا؟ اس کے بعد جسٹس جوزف حکومت اور این بی ایس اے دونوں پر سخت نالاں ہوئے۔
نفرت انگیز بیان بازی سماج کے لئے بہت بڑا خطرہ
انہوں نے کہا کہ نفرت انگیز بیان بازی سماج کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ آج کل نیوز چینل صرف اور صرف ٹی آر پی کے لئے کام کررہے ہیں اور اس کے لئے وہ سماج میں موجود خلیج کو مزید گہرا کررہے ہیں۔ ہم آنکھیں بند کرکے یہ سب نہیں دیکھ سکتے۔ ہمیں کارروائی کرنی پڑے گی۔ بنچ نے یہ بھی کہا کہ پرنٹ میڈیا کے پاس پریس کونسل آف انڈیا جیسا معتبر اورغیر جانبدار ادارہ ہے، جس کے ذریعے وہ اپنی خبروں اور مواد کو ریگو لیٹ کرلیتا ہے، لیکن الیکٹرانک میڈیا کے پاس ایسا کوئی ادارہ نہیں ہے اس لئے اتنی شدید قسم کی اشتعال انگیزی ہو رہی ہے اور کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔
بنچ نے حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ سماج میں بڑھتی نفرت میں نیوز چینلوں کے رول کے تئیں حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان معاملات میں حکومت سنجیدہ نہیں ہے اور جو اینکر کھل کر اشتعال انگیزی کررہے ہیں انھیں کھلی چھوٹ بھی دی جارہی ہے۔ ہم آزادی اظہار رائے کی ہر قیمت پر حفاظت کرنا چاہتے ہیں، لیکن کس قیمت پر؟ ان چینلوں اور اینکرس کی اشتعال انگیزی اور نفرت آمیز بیان بازی کی قیمت پر؟ ہم تو انہیں روکنے کے لئے اقدامات کریں گے، لیکن حکو مت کو بھی ہمارا ساتھ دینا ہوگا تاکہ سماج میں منظم طریقے سے پھیلائی جارہی نفرت کو ختم کیا جاسکے۔
اس طرح عدالتوں نے اب تک نیوز چینلوں، ان کے رپورٹروں، مباحثوں اور اینکروں کو تو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے، مگر ان کے مالکان کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ بہت ممکن ہے اگر نیوز چینلوں کے مالکان اور اس کے اعلیٰ عہدیداران کو بھی کٹہرے میں لایا جائے تو اس نفرت انگیزی پر کافی حد تک قدغن لگ سکتی ہے۔ کیوں کہ کوئی اینکر یا رپورٹر چینل کے مالک یا ایڈیٹر سے اوپر نہیں ہو سکتا۔ یہ صرف اینکر کی مرضی سے نہیں ہو سکتا کہ ہر روز سماج اور فرقوں کو بانٹنے والے مباحثے کرے اور اپنی مرضی سے جب چاہے کسی پینلسٹ کی آواز بند کر دے اور کسی کو مسلسل بولتے رہنے دے۔ لہذا عدالت کو آئندہ اس پہلو پر بھی غور کرنا ہوگا۔ کل ملا کر سپریم کورٹ نے یہ تو محسوس کر لیا ہے کہ یہ نیوز چینل اور اینکر نفرت پھیلانے میں پیش پیش ہیں، اب انتظار ہے کب یہ پابند سلاسل ہوتے ہیں۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایٹر ہیں) yameen@inquilab.com