بھارت جوڑو یاترا کے 100 دن بعد کیا ‘آئیڈیا آف انڈیا’ کے جذبہ کو تحریک ملی؟

راہل گاندھی کی قیادت میں ’بھارت جوڑو یاترا‘ 7؍ ستمبر کو کنیا کماری سے شروع ہوا تھا اور 16؍ دسمبر کو 100؍ دن کا سفر مکمل ہوا

تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری

راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا اب تک 8؍ ریاستوں کے 42؍ اضلاع سے گزرتے ہوئے 2763؍ کلو میٹر، یعنی کل سفر ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کا تقریباً دو تہائی حصہ طے کر چکی ہے۔ راہل گاندھی نے اپنی اس یاترا میں خوف، نفرت، مہنگائی اور بے روزگاری کے مسئلے کو اہم ایجنڈے کے طور پر پیش کیا ہے۔

انھوں نے یاترا کے 100؍ دن مکمل ہونے پر جو ٹویٹ کیا، اس میں بھی لکھا ہے کہ ’’نفرتوں کے شور میں محبت کی چیخیں گونج رہی ہیں۔ ٹوٹتی ہوئی امیدوں کے درمیان اعتماد کی کڑیاں جڑ رہی ہیں۔ تاریخ کی دھارا نئی سمت مڑ رہی ہے۔ بے روزگاری کے خلاف، مہنگائی کے خلاف، نفرت کے خلاف، ہماری اس تپسیا کو، نہ کوئی روک سکا ہے، نہ روک سکے گا!‘‘

اس طرح انھوں نے ملک کے سنجیدہ عوام کے کے دلوں تک پہنچنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ کیوں کہ آج ملک کا سنجیدہ طبقہ مذکورہ معاملات پر بے حد فکرمند ہے۔ اسے یہ فکر لاحق ہے کہ اگر وقت رہتے اس جانب توجہ نہیں دی تو ملک تاریکی میں چلا جائے گا۔ لہذا راہل گاندھی کی اس یاترا کی یہ بڑی کامیابی ہے کہ انھوں نے ملک کے ایک بڑے طبقہ کو نہ صرف اپنی جانب متوجہ کیا ہے، بلکہ ان میں امید کی ایک کرن بھی روشن کر دی ہے۔

یاترا کی سب سے بڑی کامیابی

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس یاترا کی سب سے بڑی کامیابی راہل گاندھی کا ایک سنجیدہ سیاستدان کے طور پر سامنے آنا ہے، جس نے ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی اور کارکنان کو جوش و خروش سے بھر دیا ہے۔ یاترا میں امنڈنے والی بھیڑ اس بات کا بین ثبوت ہے۔ راہل گاندھی اپنی اس یاترا کے دوران یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ یہ وقت نظریات کی جدوجہد کا ہے۔ ایک طرف فرقہ پرست طاقتیں آئین کو بدلنے پر آمادہ ہیں تو دوسری طرف آئین کی پاسداری میں یقین رکھنے والی سیاسی قوتیں ہیں جو ملک کی اقدار و روایات اور اتحاد و یکجہتی کو قائم رکھنا چاہتی ہیں۔

ایسے میں ملک کے عوام کو بھی فیصلہ کرنا ہوگا کہ نظریات کی اس جد و جہد میں وہ کس کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ ساورکر اور آر ایس ایس پر مسلسل سوالات اٹھاتے ہوئے راہل نے کانگریسی ہونے کی نظریاتی بنیاد کو بھی لازمی قرار دیا ہے۔ جو کانگریسی مودی کے اقتدار کی طاقت سے خوفزدہ ہیں یا آر ایس ایس کے ساتھ نظریاتی طور پر لڑنے سے ہچکچاتے ہیں، ان کو پارٹی چھوڑنے کے لئے کہنا راہل کی پختگی اور عزم مصمم کو ہی ظاہر کرتا ہے۔

کیا عوام کا اعتماد جیتنے میں راہل واقعی کامیاب ہوئے؟

ایسے میں یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ کانگریس اور کارکنان میں تو راہل گاندھی نے جوش بھر دیا ہے، کیا مایوس ہو چکے ملک کے عوام کا اعتماد جیتنے میں وہ واقعی کامیاب ہوئے ہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے حال ہی میں دو اہم شخصیات کے بیانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

بھارت جوڑو یاترا کے 100؍ دن مکمل ہونے سے ٹھیک ایک دن پہلے ’کولکاتہ انٹرنیشنل فلم فیسٹیول‘ میں بالی ووڈ کے ’شہنشاہ‘ امیتابھ بچن نے ’اظہار رائے کی آزادی‘ کا مسئلہ اٹھا دیا۔ فلم فیسٹیول میں مغربی بنگال کے گورنر ڈاکٹر سی وی آنند بوس، وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی، بالی ووڈ کے ’بادشاہ‘ شاہ رخ خان، اداکارہ رانی مکھرجی اور بنگالی فلم انڈسٹری کی کئی اہم شخصیات موجود تھیں۔

ہندوستانی سنیما میں سنسر شپ کے معاملے کو اٹھاتے ہوئے امیتابھ بچن نے کہا کہ ’’مجھے یقین ہے کہ اسٹیج پر موجود میرے ساتھی اس بات سے اتفاق کریں گے کہ شہریوں کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی پر اب بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔‘‘ عام طور پر وہ ان مسائل پر بولنے سے گریز کرتے ہیں۔ امیتابھ بچن کو مودی کا پسندیدہ شخص بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے باوجود وہ یہ بولنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان کا یہ بیان بہت زیادہ واضح نہیں ہے، مگر اتنا بھی کہنا اس جانب اشارہ ہے کہ موجودہ حالات نے سبھی کو اپنی زبان کھولنے پر مجبور کر دیا ہے۔

فلم ’پٹھان‘ کے ایک گانے پر تنازعہ

وہیں فلم ’پٹھان‘ کے ایک گانے پر جاری تنازع کے درمیان اداکار شاہ رخ خان نے کہا کہ سوشل میڈیا کا منفی رجحان ایک تفرقہ انگیز اور تباہ کن ذہن سازی کر رہا ہے۔ ایسے وقت میں سینما کا کردار اہم ہے۔ شاہ رخ خان نے کہا کہ ’دنیا کچھ بھی کر لے، میں، آپ اور تمام مثبت لوگ زندہ ہیں۔‘ یہی وہ سوالات ہیں جو ملک کا ایک بڑا طبقہ جن میں بہت سے دانشور، صحافی اور دیگر افراد شامل ہیں، پہلے ہی اٹھا چکے ہیں۔ لہذا ان بیانات کو ملک کے ’بدلتے موسم‘ کے طور پر بھی دیکھنا چاہئے۔ اگر ایسا ہے تو اس کا سہرا یقیناً 100؍ دن کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ اور راہل گاندھی کو دینا چاہیے۔ کیوں کہ یاترا کے آغاز سے ہی راہل گاندھی نے ان سوالات کو اٹھایا ہے۔ وہ بار بار اس بات کو دہرا رہے ہیں کہ ’ڈرو نہیں‘۔

راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کو مین اسٹریم میڈیا نے تقریباً نظر انداز کر دیا ہے۔ اس کے باوجود ایک ریاست سے دوسری ریاست تک لاکھوں لوگ جوش و خروش سے اس یاترا میں شامل ہو رہے ہیں۔ راہل گاندھی لوگوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ ’آئیڈیا آف انڈیا‘ پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔ جس میں آئین کے ذریعے پہلی بار دلتوں، آدیواسیوں، خواتین کو خاص طور پر آزادی اور مساوات کا آئینی حق دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اقلیتوں کو ان کے مذہب اور شناخت کے ساتھ تمام شہری حقوق کے ساتھ باوقار زندگی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ جس آئین کے ذریعے یہ کام ہونا تھا وہ ہی آج نشانے پر ہے۔

راہل نے انتخابات پر اپنی بھارت جوڑو یاترا کو ترجیح دی

راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کی ایک بڑی حصولیابی یہ بھی رہی ہے کہ انھوں نے عوام سے مکالمے کی روایت کو زندہ کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جمہوریت عوام اور سیاستدانوں کے مکالمے کے پہیے سے چلتی ہے۔ اگر مکالمہ نہ ہو تو جمہوریت میں استحکام اور مضبوطی نہیں رہ جائے گی۔ چند واقعات کو چھوڑ کر، پچھلی کچھ دہائیوں میں سیاستدانوں اور عوام کے درمیان راست مکالمہ تقریباً بند ہو گیا ہے۔ بھارت جوڑو یاترا نے اس تعطل کو ختم کیا ہے۔

یقیناً راہل گاندھی کی یہ بڑی کامیابی ہے۔ ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے ذریعے لاکھوں لوگوں سے مکالمہ کیا گیا ہے، جس نے ماحول کو کافی حد تک بدل دیا ہے۔ یہ یاترا اس لحاظ سے بھی بے مثال ہے کہ دنیا کی تاریخ میں شاید ہی کسی بھی سیاستدان نے ایسی پد یاترا کی ہو جس کا مقصد فوری سیاسی فائدہ حاصل کرنا نہیں، بلکہ محبت اور خیر سگالی جیسی انسانی اور تہذیبی خصوصیات کو فروغ دینا رہا ہو۔ اس کی مثال حالیہ گجرات اور ہماچل پردیش کے اسمبلی انتخابات اور دہلی میں بلدیاتی انتخابات ہیں۔ راہل گاندھی نے ان انتخابات پر اپنی بھارت جوڑو یاترا کو ترجیح دی۔

ایک یاترا نے پوری کانگریس کو بدل دیا

اس کے علاوہ اس یاترا سے راہل گاندھی کی ’پپو‘ والی شبیہ بنانے والوں کو بھی دھچکا لگا ہے۔ راہل نے یاترا کے دوران خود کہا ہے کہ ’میں نے پرانے راہل گاندھی کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے‘۔ ان کی اسکولی بچوں، نوجوانوں، خواتین، ماہی گیروں، کسانوں اور یہاں تک کہ ریزرو بینک کے سابق گورنر رگھورام راجن کے ساتھ بات چیت کے ویڈیوز لاکھوں لوگوں تک پہنچ چکے ہیں، جس سے وہ ایک سنجیدہ سیاستدان کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ یہی نہیں، اس یاترا نے کانگریس لیڈروں اور کارکنوں کی مایوسی کو دور کر دیا ہے، جوجی 23؍ کے شور و غل کے درمیان بکھری ہوئی صورت حال کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس یاترا نے نہ صرف راہل بلکہ پوری کانگریس کو بدل دیا ہے۔

آج سماجی کارکنوں سے لے کر سابق بیورو کریٹس، سابق فوجی افسر، سابق جج، دانشور، ادیب، کھلاڑی اور اداکار جس طرح اس یاترا میں شامل ہو رہے ہیں، شاید یہ ممکن نہ تھا۔ آج یہ یاترا ہر اس شخص میں کچھ کرنے کا جذبہ بیدار کرنے میں کامیاب ہے جو ’آئیڈیا آف انڈیا‘ کو ’حکمرانوں کی منظم نفرت انگیز مہم‘ سے بچانا چاہتا ہے۔

(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com